سانحہ شکارپور پر وزیر داخلہ کا بیان نہ آنے پر خورشید شاہ کی سخت تنقید،بیان تو دور کی بات اسلام آباد کے سکندر کو دو لفظ بولنے کی توفیق بھی نہ ہوئی‘ وفاقی حکومت کے روئیے سے سندھی باسیوں کی دل آزاری ہوئی‘ جس دن حکمرانوں نے ریاست کو پورا وقت دیا اسی دن پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا‘ حکومت نہیں‘ آئین اور جمہوریت کے فرینڈلی ہیں،اسمبلی میں خطاب، وزیر داخلہ سانحہ شکارپور پر ایوان کو اعتماد میں لیں گے‘ سانحہ شکارپور افسوسناک ہے‘ ہمیں صوبوں کی نہیں پاکستان کی بات کرنی چاہئے‘ شیخ آفتاب کا جواب

بدھ 4 فروری 2015 09:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 5فروری۔2015ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سانحہ شکارپور کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے پالیسی بیان نہ آنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ بیان تو دور کی بات اسلام آباد کے سکندر کو دو لفظ بولنے کی توفیق بھی نہ ہوئی‘ وفاقی حکومت کے اس روئیے سے سندھی باسیوں کی دل آزاری ہوئی‘ سندھ وفاؤں کا دیس ہے‘ جس دن حکمرانوں نے ریاست کو پورا وقت دیا اسی دن پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا‘ حکومت نہیں‘ آئین اور جمہوریت کے فرینڈلی ہیں حکومت کس فرینڈلی اپوزیشن کی بات کرتی ہے‘ سابق دور میں ہمارے خلاف یہ میموسکینڈل لایا گیا لیکن اس کے باوجود ہم پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو پاکستان مضبوط ہوگاجبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ سانحہ شکارپور پر ایوان کو اعتماد میں لیں گے‘ سانحہ شکارپور افسوسناک ہے‘ ملک دہشت گردی کا شکار ہے‘ ہمیں صوبوں کی نہیں پاکستان کی بات کرنی چاہئے‘ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی‘ ملک کو تمام بحرانوں سے نکالیں گے۔

(جاری ہے)

منگل کو نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ گذشتہ روز سانحہ شکارپور کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وزیراعظم سمیت کوئی وفاقی کابینہ کا رکن شکارپور نہیں گیا مگر اس خطاب کے بعد بھی لگتا ہے کہ وفاقی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا جس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اس سانحہ کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک قرارداد منظور کی گئی اور بلوچستان کے ایک وفاقی وزیر نے بات کی مگر وزیر داخلہ ایوان میں موجود تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے ایک لفظ تک نہیں کہا اور افسوس کا اظہار تک کرنا انہوں نے گوارہ نہیں کیا۔ جن کی صرف ذمہ داری اسلام آباد کو تحفظ فراہم کرنا ہے جس میں بھی اسلام آباد کا یہ سکندر کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔

انہوں نے کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک فعل ہے۔ کاش! وفاقی وزیر اپنے ممبران اسمبلی کی تسلی و تشفی ہی کردیتے مگر وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ شکارپور پر دو لفظ تک نہیں بولے۔ سندھ سے فون آئے ہیں کہ حکومتی وزراء اس سانحہ پر کیوں خاموش ہیں؟ وزیراعظم نے بھی انہیں کوئی ہدایت تک نہیں کی کہ ان کی طرف سے ہی کوئی بات کردیتے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جاتی عمرہ میں مصروف ہیں جبکہ ہر فرد کا تحفظ حکمرانون کی ذمہ داری ہے مگر افسوس کہ وزیراعظم کے پاس پارلیمنٹ کیلئے بھی وقت نہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔

لوگ ہم پر اعتماد کرکے ووٹ دیتے ہیں مگر جب پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی تو ان کے اعتماد اور خواہشات اس وقت دم توڑ دیتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ شکارپور ایک بڑا سانحہ تھا مگر افسوس کہ دو لفظ تک نہیں بولے گئے۔ قوم کی اس سے بڑی دل آزاری اور کیا ہوگی جس پر وزیر مملکت شیخ آفتاب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف قابل احترام ہیں لیکن ان کو وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے گلہ ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ گذشتہ پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور اب بھی سندھ میں ان کی ہی حکومت ہے۔

سندھ میں امن و امان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی وزیراعلی سندھ‘ گورنر سندھ اور ڈی جی رینجرز کی موجودگی میں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں امن قائم کرنا اولین ترجیح ہے حالانکہ سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے مگر ہماری حکومت کی بہترین کاوشوں کی وجہ سے وہاں کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکارپور صرف سندھیوں کا ہی نہیں پورے پاکستانیوں کا ہے۔

سب کو علم ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔ سانحہ پشاور اور سانحہ شکارپور دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں۔ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہمیں پورا ملک عزیز ہے اور ہمیں اس سانحہ پر بھی بہت افسوس ہے۔ وزیر داخلہ ایوان میں آکر پالیسی بیان دیں گے۔ حکومت قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران کو ختم کریں گے۔

تربیلا اپ ریزنگ سمیت دیگر منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 88ء اور 90ء کے حالات آج نہیں ہیں‘ ہمیں آگے دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ دور میں ہمیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سننا پڑا لیکن فرینڈلی اپوزیشن نہ ہم تھے اور نہ ہی موجودہ اپوزیشن فرینڈلی ہے‘ ٹیم ورک کیساتھ کام کررہے ہیں۔ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور تمام مسائل کا فیصلہ کریں گے۔

بعدازاں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہاکہ شیخ آفتاب نے جو باتیں کی ہیں مجھے حیرت ہے کہ میں نے آج تک یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم اقدامات نہیں اٹھا رہے۔ میں نے سانحہ شکارپور کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کی دکھ درد میں کیوں شریک نہیں ہوئے اگر یہاں کوئی واقعہ ہوجاتا تو ضرور جاتے ہیں مگر ہمیں اگر اپنا سمجھتے ہیں تو پھر کیوں آواز نہیں اٹھاتے۔

انہوں نے کہا کہ کونسی فرینڈلی اپوزیشن کی بات کرتے ہیں کہ میمو سکینڈل بناکر سپریم کورٹ لے جایا گیا اور الزام تراشیاں کرکے ایک جھوٹے شخص کے پراپیگنڈے کے باعث نواز شریف کو پارٹی بنادیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین اور جمہوریت کیلئے فرینڈلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں اپوزیشن اور حکومت میں کوئی تفریق نہیں کی تھی مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی سوچ اور تدبر ہمارے سامنے ہے اور سابقہ دو سالہ کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں آئے کیونکہ ہم وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں‘ اس طرح ملک مضبوط ہوگا۔ جس دن حکمرانوں نے اس ملک کو پورا وقت دیا اس دن پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن جائے گا۔ سندھ نے ہمیشہ وفاء کا ثبوت دیا ہے اور اب وفاؤں میں سندھ کو بھی یاد رکھا جائے