سلمان تاثیر قتل کیس،ممتاز قادری کیخلاف ایف آئی آر اور گواہان کے بیانات میں تضاد ہے ،قتل کا مقدمہ بنتا ہے نہ دہشت گردی کی دفعات لگ سکتی ہیں،خواجہ شریف کے دلائل

بدھ 4 فروری 2015 09:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 5فروری۔2015ء) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس کی سماعت درخواست گزار کے وکیل کے دلائل مکمل نہ ہونے پر سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔ منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس نورالحق این قریشی‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار ممتاز قادری کی جانب سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف‘ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر اور ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف وفاق کی جانب سے پیش ہوئے۔ درخواست گزار ممتاز قادری کے وکیل خواجہ محمد شریف نے عدالت میں ابتدائی دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سیکٹر ایف سکس میں واقع کوہسار مارکیٹ میں ایک ریسٹورنٹ سے نکلتے ہوئے ان کے ذاتی گارڈ ممتاز قادری نے سرکاری رائفل سے قتل کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا اور ساتھ ہی 780A کی دفعات بھی لگادی گئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے ممتاز قادری پر 780A کی دفعہ غیرقانونی طور پر لگائی گئی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ عدالت دونوں فریقین کا موقف سنے گی اور میرٹ پر فیصلہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر یقین ہے کہ کیس کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہی ہوگا۔ خواجہ محمد شریف نے دلائل دیتے ہوئے مزید بتایا کہ ممتاز قادری کیخلاف درج کی گئی ایف آئی آر اور گواہان کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے لہٰذا ان پر قتل کا مقدمہ نہیں بنتا اور نہ ہی ان پر دہشت گردی کی دفعات لگ سکتی ہیں۔

خواجہ محمد شریف نے کہاکہ ممتاز قادری کی اپیل تین سال سے ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور ابھی ایک ہفتہ قبل ہی اسے سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعاء کی کہ سابق گورنر سلمان تاثیر قتل کیس کی سماعت صبح کے وقت کی جائے کیونکہ اس میں دلائل دینے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمہ میں جتنے بھی گواہان پیش کئے گئے ہیں ان کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور سابق گورنر پنجاب نے اپنے مختلف بیانات میں توہین رسالت کے قانون کو نعوذ بااللہ کالا قانون تک کہا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ سلمان تاثیر قتل کیس کی ایف آئی آر ان کے بیٹے شہریار تاثیر نے درج کروائی تھی اور اس درج ہونے والے مقدمے میں جتنی بھی میڈیکل رپورٹس آئی ہیں ان میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے انتقال کا وقت بھی نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق گورنر کے بیٹے نے ایف آئی آرمیں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ 4 جنوری 2011ء کو کوہسار مارکیٹ کے قریب ان کے سرکاری محافظ نے سرکاری رائفل سے گولی چلاتے ہوئے انہیں قتل کیا بعد میں پولی کلینک کے ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔

سلمان تاثیر اہم قومی امور پر مخصوص نکتہ نظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے انہیں چند مذہبی جماعتوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا بعدازاں انہیں قتل کردیا گیا۔ عدالت نے خواجہ محمد شریف سے کہا کہ آپ کے دلائل آج مکمل نہیں ہوسکتے لہٰذا عدالت کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردیتی ہے کیونکہ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف اور دیگر وکلاء کے دلائل ہونا ہیں۔

مذکورہ احکامات کے بعد ممتاز قادری کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی ہوگئی۔ واضح رہے کہ ممتاز قادری کیس کے موقع پر ہائیکورٹ کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ اس موقع پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے مختلف ریلیاں ممتاز قادری کے حق میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے مرکزی گیٹ کے باہر نکالی گئیں۔ ریلی کے شرکاء اس موقع پر ان کی رہائی کیلئے نعرے بازی کرتے رہے۔

متعلقہ عنوان :