سینٹ انتخابات ، مسلم لیگ (ن) کو 18 ‘ پی ٹی آئی کو 5‘ پیپلزپارٹی کو 9‘ ایم کیو ایم کو 3‘ جے یو آئی کو 4‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو 3 نشستیں ملنے کا امکان،مسلم لیگ (ن) سندھ میں فنکشنل لیگ اور بلوچستان میں جے یو آئی کی عدم حمایت کی صورت میں صرف 16 نشستیں ہی حاصل کرپائے گی‘ عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کو کوئی بھی نشست نہیں مل سکے گی

منگل 3 فروری 2015 09:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3فروری۔2015ء) سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو 18 نشستیں‘ پی ٹی آئی کو 5‘ پیپلزپارٹی کو 9‘ ایم کیو ایم کو 3‘ جے یو آئی کو 4‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے‘ مسلم لیگ (ن) اگر سندھ میں فنکشنل لیگ اور بلوچستان میں جے یو آئی کی حمایت حاصل نہیں کرپاتی تو حکومتی جماعت صرف 16 نشستیں ہی حاصل کرپائے گی‘ عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کو کوئی بھی نشست نہیں مل سکے گی‘ اگر کے پی کے میں پیپلزپارٹی اے این پی کی حمایت کردے تو اے این پی ایک نشست حاصل کرسکتی ہے‘ جماعت اسلامی کے پی کے میں آزاد اراکین اور (ن) لیگ کی حمایت سے ایک نشست حاصل کرنے کی کوشش کرے گی‘ اگر سیاسی جماعتوں کی حمایت نہ ملی تو جماعت اسلامی کو بھی سینٹ میں کوئی نمائندگی نہیں مل پائے گی۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سینٹ انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں نے دیگر اتحادیوں کیساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اس حوالے سے تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی حمایت حاصل کرکے سینٹ میں اپنے امیدوار لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ چاروں اسمبلیوں میں سیاسی پارٹیوں کے موجود اراکین کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں تمام 11 امیدوار مسلم لیگ (ن) کے ہی کامیاب ہوں گے کیونکہ پنجاب میں تحریک انصاف الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرچکی ہے۔

اگر پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لیتی تو اسے پنجاب میں ایک نشست مل سکتی تھی دوسری طرف مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کے پاس 8‘ 8 اراکین موجود ہیں یہاں پر اگر دونوں جماعتیں آزاد اراکین اور جماعت اسلامی کو بھی ساتھ ملالیں تب بھی ایک نشست حاصل نہیں کرسکتیں۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے پاس 56 اراکین ہیں یہاں سے وہ 5 سینیٹر منتخب کراسکتی ہے۔

یہاں پر ایک سینیٹر کیلئے 11 اراکین کی حمایت لازمی ہوگی لہٰذا جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) مل کر حصہ لیتے ہیں تو انہیں 3 نشستیں ملیں گی۔ قومی وطن پارٹی کے پاس 10 اراکین ہیں اگر یہ آزاد اراکین میں سے کسی ایک کی حمایت کرلیں تو قومی وطن پارٹی بھی ایک نشست حاصل کرسکے گی۔ کے پی کے میں ماضی میں اقتدار میں رہنے والی پارٹی اے این پی‘ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی حمایت کے بغیر نشستیں نہیں نکال پائیں گی۔

اے این پی اور پیپلزپارٹی کے پاس 5 اور جماعت اسلامی کے پاس 8 اراکین ہیں۔ جماعت اسلامی اگر عوامی جمہوری اتحاد یا آزاد اراکین کی حمایت کرپاتی ہے تو اسے ایک نشست مل سکے گی جبکہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کی صورت میں بھی دونوں پارٹیوں کا مشترکہ امیدوار کامیاب ہوسکتا ہے۔ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے پاس 51 اراکین ہیں۔ یہاں پر ایک سینیٹر منتخب ہونے کیلئے تقریباً 15 اراکین کی حمایت ناگزیر ہے اس طرح متحدہ قومی موومنٹ 3 نشستیں جیت سکے گی۔

پیپلزپارٹی کے پاس 91 اراکین موجود ہیں اور اسے 8 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے پاس 11 اور (ن) لیگ کے پاس 8 اراکین ہیں اگر دونوں جماعتیں مشترکہ طور پر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں تو ایک نشست حاصل کرسکیں گی۔ بلوچستان میں ایک سینیٹر کیلئے تقریباً 5 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے۔ (ن) لیگ کے پاس 22 ایم پی اے ہیں۔ یہاں سے صرف 4 سے 5 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو 2 سے 3 ‘ نیشنل پارٹی کو 2‘ جے یو آئی کو بھی 1سے 2 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ جے یو آئی کے پاس 8 اراکین ہیں اگر وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل کرلے تو اس کے 2 سینیٹر منتخب ہوسکتے ہیں اگر جے یو آئی کسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں کرپاتی تو اسے بلوچستان سے صرف ایک نشست مل سکے گی۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے صوبائی اسمبلیوں میں اپنے امیدوار اتارنے سے قبل جوڑ توڑ شروع کردی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی کہ کونسی پارٹی کس پارٹی کیساتھ ملنے کیلئے تیار ہے۔