اسلام آباد ہائی کورٹ نے میر علی ڈرون حملے کا مقدمہ عدالتی حکم کے مطابق درج نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد پولیس کو طلب کرلیا ،قتل کا مقدمہ کہیں بھی درج ہوسکتا ہے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگ یہاں سے سب کچھ آپریٹ کررہے ہیں،پو لیس والو ں کو مقدمہ درج کر نے سے نہیں ڈرنا چا ہیے آ پ کے تھا نے پر ڈرو ن حملہ نہیں ہوگا،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریما رکس

منگل 3 فروری 2015 09:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3فروری۔2015ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے جنوبی وزیرستان کے علاقہ میر علی میں 2009ء میں ہونے والے ڈرون حملے میں دو افراد کے قتل کا مقدمہ عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق درج نہ کرنے پر ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ نواز بھٹی کیخلاف توہین عدالت کیس میں آئی جی اسلام آباد پولیس طاہر عالم خان کو ذاتی طور پر 9فروری کو طلب کرلیا ہے ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ قتل کا مقدمہ کہیں بھی درج ہوسکتا ہے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگ یہاں سے سب کچھ آپریٹ کررہے ہیں، پو لیس والو ں کو مقدمہ درج کر نے سے نہیں ڈرنا چا ہیے آ پ کے تھا نے پر ڈرو ن حملہ نہیں ہوگا ۔ سوموار کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جنوبی وزیرستان کے علاقہ میر علی میں ہونے والے ڈرون حملہ کیس کی سماعت ہوئی ۔

(جاری ہے)

درخواست گزار کریم خان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر عدالت عالیہ میں پیش ہوئے جبکہ تھانہ سیکرٹریٹ کے پولیس آفیسر نواز بھٹی اور لیگل کونسل عبدالرؤف بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ابتدائی سماعت کے دوران تھانہ سیکرٹریٹ کے اے ایس آئی نواز بھٹی سے استفسار کیا کہ ابھی تک آپ نے ڈرون حملے کیس میں ہلاک ہونے والے لوگوں کے قتل کا مقدمہ عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق درج کیوں نہیں کیا جبکہ تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او نے عدالت میں خود تسلیم کیا تھا کہ ڈرون حملہ کیس میں ہلاک ہونے والے افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے ۔

تھانہ سیکرٹریٹ کے اے ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ ڈرون حملہ کیس میں عدالت کے حکم کے مطابق کمشنر اسلام آباد نے فاٹا سیکرٹریٹ کو ایک خط لکھا اور کہا گیا کہ عدالت کے حکم کے مطابق ڈرون حملہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے قتل کا مقدمہ درج کیاجائے جبکہ فاٹا سیکرٹریٹ نے واپسی جواب میں یہ لکھا کہ ابھی تک وہاں جنوبی وزیرستان کے علاقے میں آپریشن شروع ہے لہذا اس مقدمے پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی جب حالات ٹھیک ہوجائینگے تو اس کے بعد یہ مقدمہ درج کیا جائے گا ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے آپ لوگ پاکستان کے قانون کے مطابق عمل کریں آپ لوگوں کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ ملک کا قانون واضح ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے کسی سے ڈرنے والی بات نہیں ہونی چاہیے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں یہ پاکستانی شہری کا مسئلہ ہے وہ جہاں بھی چاہیے قتل کا مقدمہ درج کرواسکتا ہے یہ ایک ضلع یا دوسرے ضلع کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ یہاں سے مختلف قسم کے آپریٹنگ سسٹم چلا رہے ہیں قتل کا مقدمہ ہائی کورٹ کے حکم پر درج ہوسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ 31دسمبر 2009ء کو جنوبی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ڈرون حملہ ہوا جس کے نتیجے میں درخواست گزار کریم خان کے بھائی آصف اقبال اور بیٹا زعیم اللہ مارے گئے تھے درخواست نے نومبر 2010ء میں ہلاک ہونے والے افراد کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت عالیہ نے پانچ جون 2013ء کو ڈرون حملہ میں ہلاک ہونے والے دو افراد کے قتل کا مقدمہ سی آئی اے کے چیف جوناتھن بنکس اور لیگل کونسل جون ایروز کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا لیکن عدالت کے حکم کے مطابق ڈرون حملہ کا مقدمہ درج نہ ہونے پر درخواست گزار نے تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے سوموار کے روز سماعت کرتے ہوئے ڈرون حملہ کیس میں عدالت کے حکم کے مطابق مقدمہ درج نہ ہونے پر آئی جی اسلام آباد کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے سماعت نو فروری تک ملتوی کردی ۔