عمران خان کیخلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 20 ارب روپے کے ہرجانہ کیس کی سماعت شروع ،مقدمہ میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے، فریقین کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کیلئے پورا موقع دیا جائے گا۔ سیشن جج نذیر احمد گنجیانہ ،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکیل احسن الدین شیخ کا عمران خان کے وکیل بابر اعوان پر اعترا ض ،ہر شہری کو مقدمہ کی پیروی کیلئے اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق اعترا ض بلا جواز ہے ، بابر اعوان

جمعہ 30 جنوری 2015 09:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30جنوری۔2015ء) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیخلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 20 ارب روپے کے ہرجانہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیشن جج اسلام آباد نذیر احمد گنجیانہ نے کہا ہے کہ مقدمہ کی سماعت میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے اور فریقین کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کیلئے پورا موقع دیا جائے گا۔

جمعرات کی صبح جب کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکیل احسن الدین شیخ نے اعتراض کیا کہ ڈاکٹر بابر اعوان کو عمران خان کا وکیل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سابق چیف جسٹس نے ان کیخلاف انکوائری کروائی تھی اور توہین عدالت کے مقدمہ میں ان کا لائسنس بھی معطل کردیا تھا اس پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ اعتراض بلاجواز ہے کیونکہ یہ اعتراض کئی بار اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹھایا گیا مگر عدالت عالیہ نے اسے رد کردیا تھا حال ہی میں سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمہ کی سماعت کے دوران بھی کچھ پر یہ اعتراض اٹھایا گیا مگر عدالت نے اس کو تسلیم نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ رول10یہ کہتا ہے کہ ہر شہری کو مقدمہ کی پیروی کیلئے اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق ہے اور رول 10A کہتا ہے کہ پوری طرف انصاف نہ صرف ہوسکے انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آئے ۔ لہذا یہ تو ممکن نہیں ہے کے مدعی مقدمہ کی یہ خواہش پوری کی جائے کہ وہ اپنا وکیل بھی مرضی سے کرے اور اپنے مخالف کا وکیل بھی اپنی مرضی سے کروانا چاہیے ۔ بابر اعوان نے زور دیا کہ عدالت کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انصاف ہوا ہے اور ہمیں مکمل دستاویزات پیش کرنے کیلئے کم از کم آٹھ سے دس ہفتے درکار ہیں ۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جب عدالتوں سے انصاف نہیں ملا تو پھر سڑکوں پر آئے اور الیکشن کے دھاندلی زدہ ہونے بارے جو انہوں نے کہا تھا کے کئی دوسرے اہم سیاستدان بھی کہہ چکے ہیں مگر ایک مخصوص سوچ کے تحت عمران کیخلاف ہر جانے کا مقدمہ دائر کردیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ارسلان افتخار نے کیا کچھ نہیں کیا جب ارسلان افتخار کو سپریم کروٹ میں بلایا گیا تو سابق چیف جسٹس نے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر کہا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا مگر میں آج عدالت سے سوال کرتاہوں کہ کیا انصاف ہوا ؟ اس پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے وکیل برہم ہوگئے اور کہا کہ اگر ارسلان کا ذکر آئے گا تو پھر یہ بھی ذکر آئے گا کہ پارٹی سے غداری کس نے کی اور پھر نندی پور پراجیکٹ کا بھی ذکر ہوگا اور سابق صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کا بھی ذکر ہوگا ہم وہ بھی دستاویزات لیکر آئینگے ۔

ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر فاضل وکیل سابق صدر آصف علی زرداری سمیت کسی بھی حوالے سے دستاویزات عدالت میں لانا چاہیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا ۔ سابق چیف جسٹس کے وکیل احسن الدین شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ قانون کے مطابق اس مقدمے کا فیصلہ تین ماہ میں ہوجانا ضروری ہے جبکہ بابر اعوان نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کا فیصلہ دس روز میں کیاجائے اور قانون بھی کہتا ہے کہ جو مقدمہ پہلے آئے تو اس کو پہلے سنا جائے اور اس تناظر میں عدالت یہ بھی دیکھے کے وفاقی وزیر خواجہ آصف کیخلاف عمران خان کا مقدمہ دو سال سے عدالتوں میں پڑا ہوا ہے اس کی سماعت اب تک کیوں نہیں ہوئی عدالت اس تاثر کو زائل کرے کہ کوئی اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے فورم کو استعمال کرنا چاہتا ہے اب وہ دور چلا گیا کہ دونوں طرف مک مکا کرکے فیصلے کئے جائیں انصاف کو ہر صورت یقینی بنانا ہوگا شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ نے فاضل جج سے کہا کہ عمران خان کے وکیل کو پابند کیا جائے کہ وہ نامناسب زبان استعمال نہ کریں وگرنہ ہم بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرینگے اس پر عدالت نے فریقین کو کہا کہ دونوں ایک دوسرے کی بات تحمل کے ساتھ سنیں عدالت نے سابق چیف جسٹس کے وکیل شیخ احسن الدین کو ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر بابر اعوان کے وکالت نامے کے حوالے سے اپنے اعتراضات کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق دائر کریں عدالت نے مزید سماعت چودہ فروری تک ملتوی کردی ۔