پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کمی، 9.5 فیصد سے 8.5 فیصد کرنے کا فیصلہ ،26 جنوری سے اطلاق ہو گا،فراط زر میں کمی اور ملکی معیشت میں بہتری شرح سود میں کمی کا سبب بنی ہے، تیل کی گرتی قیمتوں سے مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے، مالیاتی خسارہ قابو میں رہنا خوش آئند ہے ،آئندہ بیرونی رقوم کی متوقع آمد سے جدولی بینکوں سے میزانیہ قرض گیری کی ضرورت کم ہونے اور بازار زر میں سیالیت کے حالات بہتر ہونے کا بھی امکان ہے،گورنر سٹیٹ بینک کی پریس کانفرنس

اتوار 25 جنوری 2015 05:03

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25جنوری۔2015ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کمی کرتے ہوئے اسے 9.5 فیصد سے 8.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر 26 جنوری 2015ء سے عمل ہو گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ افراط زر میں کمی اور ملکی معیشت میں بہتری شرح سود میں کمی کا سبب بنی ہے جبکہ تیل کی گرتی قیمتوں سے مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔

مالیاتی خسارہ قابو میں رہنا خوش آئند ہے ،آئندہ بیرونی رقوم کی متوقع آمد سے جدولی بینکوں سے میزانیہ قرض گیری کی ضرورت کم ہونے اور بازار زر میں سیالیت کے حالات بہتر ہونے کا بھی امکان ہے ۔ ہفتہ کوگورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے اگلے دو ماہ کے لیے زری پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اہم معاشی اظہاریے نومبر 2014ء کے گذشتہ زری پالیسی فیصلے کے بعد سے مزید بہتر ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

”گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت اور اس کی توقعات مسلسل کمی کی راہ پر چل رہی ہیں۔ پچھلے دو ماہ نومبر اور دسمبر 2014ء میں تجارتی خسارہ کم ہوا ہے گو کہ مالی سال 15ء کی پہلی ششماہی میں، مالی سال 14ء کی پہلی ششماہی کی نسبت اس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مزید برآں، زر مبادلہ رقوم کی خاصی آمد سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد ملی ہے“۔ گورنر کے مطابق مالیاتی خسارے کا اب تک قابو میں رہنا بھی حوصلہ افزا ہے اور حکومت کی ہم آہنگ و مربوط پالیسیوں کی ساکھ اور سرکاری و نجی رقوم کی آمد کے لیے اچھا شگون ہے۔

ان مثبت تبدیلیوں کی بنا پر رواں مالی سال کی پہلی ششماہی م س 15ء کے بقیہ مہینوں کے لیے بہتر معاشی منظرنامے پر ختم ہوئی۔گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے مہنگائی میں کمی کو وسیع البنیاد قرار دیا کیونکہ غذائی اور غیر غذائی گرانی دونوں کم ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غذائی گرانی کی رفتار میں سستی بنیادی طور پر رسد کے بہتر حالات کا نتیجہ ہے جبکہ غیر غذائی گرانی میں کمی کی توضیح کئی عوامل کے امتزاج سے ہوتی ہے جن میں تیل کی گرتی ہوئی بین الاقوامی قیمتیں نیز دیگر اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی، گذشتہ محتاط زری پالیسی موقف کا مؤخر اثر اور معتدل ہوتی ہوئی مجموعی طلب کے علاوہ مستحکم شرح مبادلہ شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 15ء کے لیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کا تخمینہ نظرثانی کے بعد کم کرتے ہوئے 4.5 تا 5.5 فیصد کر دیا ہے، جو 8 فیصد کے سالانہ ہدف سے کافی نیچے ہے۔تیل کی عالمی قیمتوں میں حالیہ کمی کا حوالہ دیتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ تجارتی توازن پر اپنے متوقع سازگار اثر کے ذریعے اس نے حالیہ مہینوں کے دوران بیرونی شعبے کا منظرنامہ بہتر بنانے میں کردار ادا کیا۔

نیز آئی ایم ایف کے ای ایف ایف کے تحت چوتھے اور پانچویں جائزے کی کامیاب تکمیل اور بین الاقوامی صکوک کے اجرا سے بھی ادائیگیوں کے توازن کی مجموعی کیفیت بہتر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ”اس صورتحال نے بازار مبادلہ میں احساسات کو بہتر بنایا اور اسٹیٹ بینک کو ذخائر بڑھانے کی کوششوں میں مدد ملی“۔گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جاری رہنے، اور نجکاری سے اور سرکاری رقوم کی متوقع آمد سے اسٹیٹ بینک کے خالص ذخائر مزید بڑھ جائیں گے۔

”تاہم مجوزہ نجکاری آمدنی نہ آنے اور نجی رقوم کے فقدان کی صورت میں ادائیگیوں کی توازن کی پائیداری کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں“۔ گورنر وتھرا نے کہا کہ مالی سال 15ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران سودی ادائیگیوں میں خاصے اضافے کے باوجود مالیاتی خسارہ قابو میں رہا اور اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرض گیری طے شدہ اہداف سے نیچے رہی۔ چونکہ حکومت پی ایس ایز سے متعلق اخراجات کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہی اس لیے اس نے گذشتہ سال کی نسبت ترقیاتی اخراجات بڑھا دیے۔

تاہم پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی سست رفتاری کے باعث ایف بی آر کی محاصل کی وصولی کی نمو معتدل ہوگئی۔ آئندہ سلامتی سے متعلق خرچ بڑھنے کی وجہ سے مجموعی اخراجات بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ، ایف بی آر کے محاصل میں متوقع کمی مالیاتی خسارے کے ہدف کا حصول دشوار بنا سکتی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 15ء کی پہلی ششماہی کے دوران نجی شعبے کے قرضے کا استعمال پچھلے سال کی اسی مدت سے کم ہے۔

”قرضے کی نمو میں یہ سستی طلب اور رسد دونوں کے مسائل سے منسوب کی جا سکتی ہے جیسے ستمبر 2014ء تک اہم صنعتوں کی کمزور کارپوریٹ نفع آوری، حکومتی قرض گیری کی اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کو منتقلی جبکہ امانتوں میں نمو سست تر ہے، سلامتی کی دشوار صورتحال، اجناس کی گرتی ہوئی قیمتیں اور صنعت کے لیے توانائی / گیس کی مسلسل قلت۔ تاہم نومبر 2014ء میں پالیسی ریٹ کی کمی کے مؤخر اثر کے ساتھ قرضے کے استعمال کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے“۔

اشرف محمود وتھرا نے بتایا کہ پالیسی ریٹ کم کیے جانے کے باوجود مالی سال 15ء کی پوری پہلی ششماہی کے دوران بین البینک بازار میں تنگی رہی، دوسری سہ ماہی میں بازار مبادلہ پر دباؤ کافی کم ہو گیا تو حکومت نے قرض گیری اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کی طرف منتقل کر دی۔ ”مہنگائی میں مسلسل کمی کی وجہ سے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں طویل مدتی تمسکات میں سرمایہ کاری کے لیے جدولی بینکوں کی طلب قائم رہی کیونکہ شرح سود میں مزید کمی کی توقعات بڑھ گئیں۔ آئندہ بیرونی رقوم کی متوقع آمد سے جدولی بینکوں سے میزانیہ قرض گیری کی ضرورت کم ہونے اور بازار زر میں سیالیت کے حالات بہتر ہونے کا امکان ہے۔

متعلقہ عنوان :