خورشید شاہ کا سندھ کو وفاقی قابل تقسیم پو سے روینیو اور براہ راست منتقلیوں کی کم وصولی پر تشویش کا اظہا ر، ترقیاتی کاموں کی ست روی سے نہ صرف صوبہ کی عوام بنیادی سہولیات سے محروم بلکہ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں بھی کافی وقت درکار ہوگا، منصوبوں کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا،اپوزیشن لیڈر کا اجلاس سے خطاب

ہفتہ 17 جنوری 2015 08:05

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جنوری۔2015ء)وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے سندھ کو وفاقی قابل تقسیم پول (فیڈرل ڈویزبل پول) سے روینیو اور براہ راست منتقلیوں (اسٹریٹ ٹرانسفرز) کی کم وصولی پر اپنی تشویش / خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے پبلک سیکٹر ڈولمپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت صوبہ سندھ کے ترقیاتی کاموں کے سالانہ مد میں بھی کم رقوم مختص کرنے پر بھی اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی ست روی سے نہ صرف صوبہ سندھ کی عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوگی بلکہ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں بھی کافی وقت درکار ہوگا، جس سے منصوبوں کے اخراجات مین بھی اضافہ ہوگا۔

اس تشویش کا اظہار انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس صوبہ سندھ کے وفاقی حکومت سے متعلق مالی معاملات پر بحث کے دوراں کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ ، رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر ، چیف سیکریٹری سندھ سجاد سلیم ہوتیانہ ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبابندی و ترقیاتی محمد وسیم ، وزیر اعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو، صوبائی سیکریٹری خزانہ سہیل راجپوت و دیگر افسران نے اجلاس میں شرکت کی ۔

اجلاس میں مالی معاملات پر تفصیلی غوروغوض کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء نے ای سی سی کی جانب سے صوبوں سے مشاورت کئے بغیر یکطرفہ فیصلے کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ماڑی پیٹرولیم کی گیس قیمتوں کا تعین کرنے کے طریقہ کار میں ردو بدل کرنے، گیس کے نقصانات کے حدف 4.5سے 9فیصد مقرر کرنے اور ملک سے گندم اور چینی کی برآمد کرنے کے لئے سبسڈی پر خرچ ہونے والی رقم کا 50فیصد صوبوں سے وصول کرنے جیسے فیصلوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔

اجلا س میں وفاق سے کہا گیا کہ کاؤنسل آف کامن انٹریسٹ میں حل طلب مسئلوں کو ای سی سی میں نہ پیش کیا جائے۔صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے اجلاس کو بریفنگ میں بتایا کہ وفاقی حکومت ہمیشہ صوبہ سندھ کو وفاقی قابل تقسیم پول سے مقررہ حصے سے کم رقوم دیتی ہے مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گذشتہ مالی سال کے دوراں سندھ حکومت کا حصہ -332 ارب روپے کیا گیا تھا جو بعد میں روائز کر کے 308ارب روپے کئے گئے تھے جن میں سے سندھ کو صرف 291ارب وصول ہوئے جوکہ -17 ارب روپے کم تھے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ مالی سال کے بقایا جات میں سے -12 ارب روپے جاری کیے ہیں جبکہ ابھی بھی وفاقی حکومت کے پاس -5 ارب روپے کے بقایا جات ہیں ۔ اسی طرح رواں مالی کی وصولیوں پر دسمبر 2014 تک سندھ حکومت کو -155 ارب روپے موصول ہونا تھے، جس میں سے ابھی تک -144ارب روپے موصول ہوئے ہیں جوکہ -11 ارب روپے کم ہیں۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں وفاقی قابل تقسیم پول میں حکومت سندھ کیلئے 381.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس کی ماہانہ اقساط 31.71ارب روپے بنتی ہے لیکن ہمیں جولائی2014 ء میں 13.9 ارب روپے ، اگست میں 21.9 ارب روپے ، ستمبر میں 25.7 ارب روپے ،اکتوبر میں 21.5 ارب روپے ، نومبر میں 32 ارب روپے اور دسمبر 2014میں 29.2 ارب روپے موصول ہوئے۔

انہوں نے واضع کیا کے کسی ایک مہینے میں بھی رقوم کا مقررہ حصہ نہیں دیا گیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صوبوں کو رقوم کی ماہانہ اقساط جاری کی جائیں تاکہ صوبوں کو اخراجات سے نمٹنے کیلئے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔رقوم کی سیدھی منتقلیوں کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ نے اجلاس کو بریفنگ میں بتایا کہ اس مد میں حکومت سندھ کو سالانہ مختص کی گئی رقم 82.6 بلین روپے میں50 فیصد یعنی 41.3 ارب روپے کے بجائے سندھ کو -25 ارب روپے موصول جس کے باعث -16 ارب روپے کمی کا سامنا ہے۔

سید مراد علی شاہ نے فورم کو مزید بتایا کہ وفاقی حکومت نے 2011-12 میں شروع کی گئی گیس انفراسٹرکچر ڈولپمینٹ (GIDC ) کے تحت -135 ارب روپے جمع کیے ہیں تاکہ یہ رقم پاک - ایران گیس پاپئپ لائن منصوبے ، دیگر قومی و عالمی گیس ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جا سکے مگر وفاقی حکومت کا یہ اقدام پشاور ہائی کورٹ میں چلینج کیا گیا اور عدالت نے اس عمل کو غیر قانونی قرار دی کر جمع کی گئی رقم واپس دینے کا حکم جاری کیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔

انہوں نے کہا جیسا کہ یہ رقوم انفراڈی صارفین سے وصول کی گئی تھی تاہم ہر صارف کی نشاندہی کرنا اور اسے رقوم واپس کرنا مشکل ہے۔ اس صورت میں وفاق کی جمع کی گئی رقم جی ڈی ایس فارمولہ کے تحت صوبوں کو واپس کر دینی چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان رقوم سے سندھ کو 70سے 80ارب روپے ملنے ہونگے۔ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کے اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی (ای سی سی ) کی سفارشات کے تحت گیس (یو ایف جی) (لیکیج ، چوری و نقصانات) کے حجم میں 4.5فیصد سے بڑھا کر 9فیصد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ آرٹیکل 154کے تحت سی سی آئی کے تحت آتا ہے ۔

انہوں نے ای سی سی کے گیس کی قیمیتوں سے متعلق نا معقول فیصلے جس کے تحت سندھ کے ماڑی گیس پیٹرولیم کی قیمتوں کے میکنزم کو لاگت کے فارمولے سے ہٹا کر پیٹرولیم کے ساتھ منسلک کیا گیا کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا ۔ انہوں نے قاضی احمد آمری پل کے توسیعی کام پر آنے والی 3ارب روپے کی لاگت سے 50فیصد سندھ حکومت سے چارج کرنے اورچینی اور گندم کی برآمد پر خرچ ہونے والی سبسڈی کا 50فیصد صوبے سے وصول کرنے کے فیصلے کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات محمد وسیم نے اجلاس کو پی ڈی ایس پی کے تحت ترقیاتی اسکیموں پر عملدرآمد سے متعلق اجلاس کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت پی ایس ڈی پی کے تحت 36مختلف ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کررہی ہے جس پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 175بلین روپے ہے مگر ان منصوبوں کی رواں مالی سال کے دوران وفاق سے سالانہ الوکیشن صرف 14 بلین روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان 14بلین روپے میں سے 6.5بلین روپے جاری کئئے جاچکے ہیں جو کہ 46فیصد بنتا ہے مگر پی ایس ڈی پی کی ترقیاتی اسکیمیں جن پر وفاقی حکومت عملدرآمد کرا رہی ہے ان کی جانب سے فنڈز کے اجراء کی شرح بہت کم یعنی صرف 26 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا دریائے سندھ پر قاضی احمد آمری پل کی تعمیر کا کام سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر شروع کیا گیا تھا اور اس کو مکمل طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ ہونا ہے اور اس پر لاگت کاتخمینہ 4بلین روپے تھا مگر بعد میں صدر صاحب کے حکم پر برج کا روڈ دو لائن سے بڑھا کر 4لائن کر دیا گیا اور اس میں مزید لاگت 3بلین روپے کا اضافہ ہوا۔

اور اب وفاقی حکومت اس پر ہونے والی توسیع کام کی لاگت کی مد میں 50فیصد کا مطالبہ کر رہی ہے جو کہ ان کے مطابق ناا نصافی کی بات ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ستمبر 2013میں کراچی میں سنگین جرائم کے خلاف شروع کیئے گئے ٹارگیٹیڈ آپریشن کے لئے بھی 10ارب روپے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں وفاقی حکومت نے اس ضمن میں3.7ارب روپے دینے پر اتفاق کیا جن کے لئے ابھی تک منتظر ہین۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے GIDCمیں شئیر سے متعلق انہوں نے وفاقی حکومت کو 16جولائی اور 25ستمبر 2014 کو خطوط تحریر کئے ہیں جن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا ۔ اسی طرح فیڈرل بور ڈ آف رونیو نے بھی سندھ رونیو بورڈ کے 3ارب روپے کی پوری رقم ابھی تک واپس نہیں دی جو کہ گزشتہ سال غلطی سے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوگئی تھی ۔ اجلاس میں تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد ان معاملات کو قومی اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ وفاقی قابل تقسیم پول میں سے مقررہ وقت پر رقوم وصول کی جاسکیں ۔

اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ گندم کی برآمد کے غلط فیصلوں کے باعث حکومت سندھ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے اس حکومت سندھ نے گندم یا چینی کی درآمد پر 50فیصد سبسڈی نہیں دے گی۔ اجلاس میں وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو جی آئی ڈی سی میں اس کا حصہ نہ موصول ہونے پر عدالت اعلیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔