دنیا بھر میں مسلمان گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر مشتعل نہ ہوں، صبر سے کام لیں، یورپ سمیت دیگر ممالک کے آئمہ کرام اور علما ء کرام کی اپیل ، آزادی اظہار کے دعویداروں کو دوسروں کی آزادیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ایسا مواد شائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے، بیان

جمعہ 16 جنوری 2015 09:11

فرانس(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جنوری۔2015ء)یورپ سمیت فرانس اور دوسرے کئی ممالک کے آئمہ کرام اور علما ء کرام نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر مشتعل نہ ہوں اور صبر سے کام لیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزادی اظہار کے دعویداروں کو دوسروں کی آزادیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ایسا مواد شائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ 53 مسلمان سکالرز نے اپنے دستخطوں سے جاری کردہ ایک بیان میں مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کسی قسم کے اشتعال میں نہ آئیں اور خود کو پرامن رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مسلمانوں کا ردعمل اسلامی تعلیمات اور رسول کریم کی درگزار اوررحم کرنے کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت سے مسلمانوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے جذبات نہ قابل یقین حد تک دکھی ہوتے ہیں اور ان کے دل اس سے زخمی بھی ہوتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے مسلمانوں کا ردعمل اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق رسول کریم نے دوسروں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے اور رحم کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے صبر، برداشت، نرم خوئی اور رحم کی تلقین کی ہے۔

مسلمانوں کو ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی عمل کا فوری ردعمل اس سے زیادہ اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا مقصدیہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس طرح کے گستاخانہ خاکوں کو زیادہ اہمیت دی جائے بلکہ ان کو نظر انداز کرنا ہی درست اقدام ہوگا۔ اس سے یہ زیادہ نمایاں نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی تقاریر اور ایکشن میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔

اسلام اس آزادی کا قائل ہے تاہم اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ دوسروں کی آزادی کا بھی احترام کیا جائے اور جس بات پر وہ یقین رکھتے ہیں اسے درست تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کو دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ مادر پدر آزادی کی اجازت کسی بھی معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔ لوگوں کی عزت و وقار اور جائیداد کا تحفظ کرنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔

ایک دوسرے کے کلچر کا احترام کریں اور کمیونٹیز کے اندر دراڑیں پیدا نہ ہونے دیں۔ مسلمانوں کے لئے رسول کریمﷺ کے ساتھ محبت ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے حضور اکرمﷺاپنے والدین، بچوں اور خود سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ مسلمان اپنے جذبات دوسری کمیونٹیز کو بتانے کے لئے ان کے ساتھ رابطے کریں۔ مسلمان اپنے غیر مسلم دوستوں کو یہ بتانے سے شرم محسوس نہ کریں کہ انہیں اپنے مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑائے جانے پر شدید صدمہ ہوتا ہے۔

غیر مسلموں کو بتایا جانا چاہئے کہ مسلمان اپنے پیغمبراسلام سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ اپنی زندگی میں رسول کریمﷺ نے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کیا مگر انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے لوگوں کو یہ ثابت کیا کہ وہ پرامن ہیں۔ انہوں نے کسی بھی قسم کی پرتشدد رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان پر طائف میں زبانی اور جسمانی طور پر بھی حملے کئے گئے مگر انہوں نے ان لوگوں کو معاف کر دیا۔

ان کے چچا اور ساتھیوں کو قتل کیا گیا مگر انہوں نے اس پر بھی پرامن ردعمل ظاہر کیا۔ رسول کریمﷺ نے اپنے خلاف باتوں کرنے والوں کے خلاف کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی اور اس حوالے سے مسلمانوں کو ہمیشہ صبر کی تلقین کی ہے۔ بعض لوگ اسلاموفوبیا کی حرکتوں کے ذریعے مسلمانوں کے اندر اشتعال پیدا کرکے انہیں کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس طرح کی حرکتوں سے ہوشیار رہنا چاہئے اور وہ قانون اپنے ہاتھوں میں نہ لیں۔

مسلمانوں کو جذباتی لوگوں کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیلنا چاہئے۔ یورپ کے مسلمانوں کو اس طرح کی صورتحال سے خبردار رہنا چاہئے اور بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔فرانس ایک پر امن ملک ہے جہاں مسلمان کئی دہائیوں سے بسلسلہ روز گار آبا د ہیں اور ہر قومیت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔فرانس میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے لیکن قانون کے اندر رہ کر ۔قانون سے بالاتر کوئی نہیں ۔

حکومت فرانس کو بھی حکومتی لیول پر قانون سازی کرنی ہو گی ،جس میں تمام مذاہب کو تحفط کیا جائے اور کسی بھی مذہب کی دل آزاری کا خاتمہ کرنا چاہیے ۔مذہب خواہ مسلم ہو عیسائی ہو صہیونی ہو تمام مذاہب کے لوگوں کو چاہیے کہ فرانس کو ایک پر امن ملک رہنے دیں ۔نہ کہ فرد واحد قانون ہاتھ میں لے اور دہشت گردی کر دے ۔اسلام تو بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔

ہمسائیوں کے ساتھ اچھے سلوک کا درس دیتا ہے ۔میرے حضور ﷺ کا ایک مشہور واقعہ تو سنا ہو گا جس میں ایک بوڑھی عورت روزانہ حضور ﷺ پر کوڑا پھنکتی تھی ۔لیکن حضور ﷺ نے اپنے کردار سے اسے مسلمان کیا ۔ہمیں بھی نبی اکرم ﷺکے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہو گا ۔سانحہ پشاور ہو یا سانحہ پیرس قابل مذمت ہیں ۔دہشت گردی کی اس لہر کو ختم کرنا ہو گا ۔دنیا میں امن برپا کرنا ہو گا ۔