لاپتہ افراد کیس ،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کر دئیے ، ملک بھر سے لاپتہ افراد کی تمام تر تفصیلات دو ہفتوں میں پیش کر نے کا حکم ، اٹارنی جنرل سلمان بٹ سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری،لوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کو شناخت تک محفوظ رکھنے کیلئے سرد خانوں بارے تحریری جواب بھی طلب کر لیا گیا

منگل 13 جنوری 2015 09:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13جنوری۔2015ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر سے لاپتہ افراد کیس میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے دو ہفتوں سے تمامتر تفصیلات طلب کرلی ہیں‘ اٹارنی جنرل سلمان بٹ سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کو شناخت تک محفوظ رکھنے کیلئے سرد خانوں بارے تحریری جواب طلب کیا‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک قومی ایشو ہے جسے ایسے نہیں چھوڑا جاسکتا‘ لاپتہ افراد کے لواحقین پریشانی کا شکار ہیں‘ لاپتہ افراد کا معاملہ پورے ملک کا معاملہ ہے جس کے حوالے سے تمامتر شواہد حکومت نے اکٹھے کرنے ہیں‘ ابھی تک لاپتہ افراد بارے مکمل معلومات دستیاب نہیں ہیں وفاق اور صوبے اس حوالے سے تفصیلات عدالت کو مہیاء کریں‘ بلوچستان حکومت مسخ شدہ لاشوں کو شناخت کئے بغیر کیسے دفن کرسکتی ہے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں لاشوں کو محفوظ رکھنے کیلئے سردخانے ناکافی ہیں جس کی وجہ سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کو دو سے تین روز کے بعد دفنانا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ رپورٹ پیر کے روز عدالت کے روبرو پیش کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پیر کے روز خضدار میں اجتماعی قبروں اور لاپتہ افراد سے متعلق مقدمہ کی سماعت شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ لاپتہ افراد سے متعلق تمامتر تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں اس دوران صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز بھی پیش ہوں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ پورے ملک کا ہے جسے نامکمل نہیں چھوڑا جاسکتا‘ شواہد ہم نے نہیں حکومت نے اکٹھے کرنے ہیں۔ حکومت بلوچستان کیا کہتی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ جس لاپتہ شخص کا پتہ چلتا ہے اسے پیش کردیا جاتا ہے اور اگر نہ ملے تو اس کے حوالے سے اشتہار دیا جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ آپ نہیں کرتے‘ دو دن بھی نہیں رکتے‘ آپ تحریری طور پر لکھ کر دے دیں کہ آپ ایسا کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بھی جواب داخل کرنا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جب اس کیس کی سماعت کی گئی تو بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ جب مردہ افراد کی لاشیں ملتی ہیں تو ان کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ کوئٹہ میں ان لاشوں کو رکھنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لاشیں دو سے تین روز بعد دفن کردی جاتی ہیں۔ حکومت بلوچستان کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اس حوالے سے عدالت کو بتایا جائے۔

وقفے کے بعد اے جی بلوچستان نے بتایا کہ انہوں نے سیکرٹری وزارت داخلہ بلوچستان سے بات کی ہے تو انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے۔ آرٹیکل 174‘ 176 سی آر پی سی کی تحت ہی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ لاشوں کے ملنے کے بعد ان کی شناخت نہ ہونے پر اشتہار بازی کی جاتی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے اگر وہ شناخت کرلیتے ہیں تو ان کے حوالے کردی جاتی ہیں۔

نصراللہ بلوچ اور صدر بار کوئٹہ نے حکومت کے اس اقدام کی نفی کی۔ عدالت نے کہا کہ اعلی حکومتی شخصیت کے تصدیق شدہ بیان کی کاپی عدالت میں دو ہفتوں میں جمع کروائی جائے۔ اے جی عدالتی حکم کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کروائیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے ہمیں معلومات نہیں ہیں‘ تقریباً تمام صوبوں کے اس طرح کے معاملات ہیں۔

یہ قومی سطح کا ایشو ہے۔ اٹارنی جنرل اور صوبے اس حوالے سے جائزہ لیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کو پریشانی ہے اس حوالے سے کوئی معلومات تک نہیں۔ رزاق اے مرزا سمیت تمام لاء افسران تفصیلات جمع کروائیں۔ کے پی کے سمیت دیگر صوبوں میں بھی لاپتہ افراد کے معاملات درپیش ہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں سے لاپتہ افراد بارے تفصیلات طلب کرلیں۔

متعلقہ عنوان :