تعلیمی ادارے 12 جنوری کوکھول دیئے جائیں گے،بیرسٹر عثمان ابراہیم،پی آئی کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں،سکیورٹی خدشات کے باعث غیر ملکی پروازیں پاکستان آنے کو تیار نہیں،شیخ آفتاب،بجٹ نہیں اس لئے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو سکتا،وقفہ سوالات

جمعہ 9 جنوری 2015 08:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9 جنوری۔2015ء) قومی اسمبلی کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے کیپٹل ایڈمنسٹریشن و ترقی بیرسٹر عثمان ابراہیم نے بتایا ہے کہ وفاقی تعلیمی ادارے 12جنوری سے کھول دئیے جائیں گے اور تمام تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے انتظامات کھلنے سے پہلے پہلے مکمل کر لئے جائیں گے۔بلوچستان میں ممبران اسمبلی 5لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں مگر وہ امیر صوبہ ہے جبکہ وفاقی حکومت کے پاس ممبران اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے کوئی بجٹ دستیاب نہیں،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ افتاب نے کہا کہ پی آئی اے کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں سیکورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی پروازیں پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں مختلف اراکین کے سوالات کے جواب میں بیرسٹر عثمان ابراہیم نے کہا کہ اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں تمام تعلیمی اداروں میں میٹل ڈیٹیکٹر سی سی ڈی کیمرے اور سیکورٹی گارڈ تعینات کئے جا رہے ہیں تعلیمی اداروں کی دیواروں کو 8فٹ تک اونچا کیا جائے گا اور ان پر خاردار تاریں لگائی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

سکولوں میں آنے والے تمام طلباء اور سٹاف کو چیک کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی نصاب کو پورا کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام تعلیمی ادارے 12جنوری سے کھولے جائیں گے۔ اراکین قومی اسمبلی کی تنخواہوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ممبران اسمبلی 5لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں مگر وہ امیر صوبہ ہے جبکہ وفاقی حکومت کے پاس ممبران اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے کوئی بجٹ دستیاب نہیں، اگر پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوئی تو ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں دو سے تین گنا تک اضافہ کیا جائے گا۔

شیخ افتاب نے پی آئی اے کی کارکردگی اور ناقص خوراک سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ پی آئی اے کے کھانے کا معیار خراب ہے مسافروں سے بہت زیادہ پیسے لئے جاتے ہیں مگر وہاں پر صرف چپس کھانے کو ملتے ہیں پروازیں بہت زیادہ لیٹ ہو رہی ہیں جس میں ایک وجہ دھند کی بھی ہے ائیرپورٹس پر بھی دئیے جانے والے کھانے بہت مہنگے ہوتے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ پی آئی اے کی صورتحال کے بارے میں ممبران اسمبلی کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے اس معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر سپیکر نے پی آئی اے سے متعلق تمام سوالوں کو سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کا حکم دیدیا کہ ملک میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ائیر لائنز کی پروازیں پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہیں حکومت کوشش کر رہی ہے کہ صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے مگر فی الحال اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ 21ویں ترمیم کے بعدملک میں آمن وآمان کی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور اس کے بعد غیر ملکی پروازیں بھی دوبارہ آنا شروع ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں چراہ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس منصوبے کے لئے 50فیصد بجٹ پنجاب حکومت اور 50فیصد سی ڈی اے فراہم کرے گی اس منصوبے کا مقصد راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کے عوام کو سیلاب سے بچاؤ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔یہ منصوبہ نیسپاک نے تیار کیا ہے اور ان کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سویٹ ہومز کے تحت33ادارے کام کر رہے ہیں جس میں 4سے 6سال تک کے بچوں کو رہائش بہترین کھانا اور تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے، امسال بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے مزید سویٹ ہومز کی تعمیر کا منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے اور جونہی حکومت کے پاس بجٹ میں اضافہ ہوگا اس وقت نئے سویٹ ہومز بنائے جائیں گے۔ وزیر تعلیم بلیغ الرحمن نے بتایا کہ کیوبا میں پاکستان کے سینکڑوں طلباء میدیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان طلباء کو ایچ ای سی نے منتخب کیا تھاانہوں نے بتایاکہ پاکستان میں پی ایم ڈی سی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کا ٹیسٹ لیتی ہے اور پہلے بیج کے 200طلباء میں سے 140طلباء نے یہ ٹیسٹ پاس کر لیا تھا اور امید ہے مزید طلباء دوسرے مرحلے میں ٹیسٹ پاس کر لیں گے۔

انہوں نے کہاکہ کیوبا کا شمار دنیا کے بہترین میڈیکل کی تعلیم دینے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور وہاں پر پاکستانی طلباء نے بہت اچھا وقت گزارا ہے جس کی تعریف کیوبا کے سفیر نے بھی کی ہے۔ شاہ نواز رانجھا نے کہاکہ پاکستان میں 403عمارتیں قومی ورثہ قرار دی جا چکی ہیں جن میں 30عمارتیں بلوچستان میں 92عمارتیں خیبر پختونخوا میں 129عمارتیں سندھ میں جبکہ151عمارتیں پنجاب اور ایک عمارت گلگت بلتستان میں ہے انہوں نے بتایاکہ 18ویں ترمیم کے بعد تمام عمارتوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے اور اس سلسلے میں انہیں باقاعدہ طورپر مطلع کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی بھی کر لیں انہوں نے ان عمارتوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بہتر نہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے کہاکہ اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ مزید مشاورت کر یں گے

متعلقہ عنوان :