ذکی الرحمن لکھوی کی نظربندی ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار،سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ ہائیکورٹ کو ارسال کردیا‘ 12جنوری کو وفاقی حکومت سمیت فریقین کی بحث سن کر فیصلہ کیا ‘ فیصلے سے متاثرہ فریق دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے،سپریم کورٹ، وفاق کو اس کا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے‘ عدالتیں موجود ہیں کسی کیساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعرات 8 جنوری 2015 09:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8 جنوری۔2015ء) سپریم کورٹ نے ذکی الرحمن لکھوی کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے نظربندی ختم کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ دوبارہ ہائیکورٹ کو ارسال کردیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ 12 جنوری 2015ء کو وفاقی حکومت سمیت فریقین کو سیر حاصل بحث سن کر فیصلہ کردے‘ فیصلے سے متاثرہ فریق دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ جج صاحب نے عبوری فیصلہ کچھ عجلت میں کیا ہے انہیں وفاقی حکومت کو بھی سننا چاہئے تھا‘ جمعہ کو فیصلہ دیا اگلے دو دن چھٹی تھی جس کی وجہ سے سیکرٹری داخلہ کی ہدایات تک موصول نہیں کرسکے‘ وفاق کو اس کا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے‘ عدالتیں موجود ہیں اور کسی کیساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے‘ کوئی فکرمند نہ ہو سب کیساتھ انصاف ہوگا‘ ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہوگا‘ ہم آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند ہیں‘ چھ سال سے جیل میں بیٹھے ملزم سے بھلا کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے‘ باتیں تو سب پر ہوتی ہیں‘ 1898ء میں بنائے گئے ضابطہ فوجداری کے وقت تو ہم سب محکوم تھے اسلئے 1973ء میں بننے والے آئین کے تحت اس 1898ء کے ضابطے کو پرکھ کر ہی فیصلہ دینا چاہئے‘ آئین کے آرٹیکل 9 کی جس طرح سے اہمیت ہے کسی اور آرٹیکل کی نہیں ہے‘ کسی بھی شخص کو غیرقانونی طور پر ایک سیکنڈ کیلئے بھی جیل میں نہیں رکھا جاسکتا‘ 1973ء میں ہم سب کو بنیادی حقوق دئیے گئے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ عبوری فیصلے کے تحت نظربندی میں دیا گیا ریلیف اس سے قبل کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں ہے‘ قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ ذکی الرحمن لکھوی کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ جبکہ ملزم کی جانب سے افراسیاب ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وکالت نامہ ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے اور افراسیاب ایڈووکیٹ ملزم کے وکیل کے طور پر پیش ہوں گے۔

اے جی نے بتایا کہ 18 دسمبر 2014ء کو ذکی الرحمن لکھوی کو ضلعی مجسٹریٹ کے حکم پر تحویل میں لیا گیا۔ عدالت آرڈر پڑھنے کو کہا اے جی نے آرڈر پڑھا کر سنایا۔ چوہدری افراسیاب نے کہا کہ میں نے ان کی تمام معروضات سماعت کی تھیں اس وقت میں وکیل نہیں تھا۔ مجھے یہ کاغذات نہیں دئیے گئے جو عدالت میں فائل کئے گئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تمامتر کاغذات ان کو دے دیں۔

وہی ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔ ہم تو قانون کے مطابق ہی فیصلے کردیں گے جو وفاق اور ملزم دونوں چاہتے ہیں۔ اے جی نے 18 دسمبر 2014ء کا آرڈر پڑھ کر سنایا۔ بتایا کہ 12 فروری 2009ء کے مقدمے میں وہ ملوث ہیں۔ ملزم کو گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا گیا۔ ملزم کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے تھا۔ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں سکول پر حملے کے بعد ان کی نظربندی کو ضروری سمجھا گیا اسلئے عام لوگوں کی سکیورٹی کیلئے انہیں تحویل میں لیا گیا‘ شیر دل مجاہد نے احکامات جاری کئے۔

لکھوی رینالہ خورد ساہیوال کا رہنے والا ہے اور آج کل بھارہ کہو میں رہائش پذیر ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ تو پہلے ہی نظربند ہیں اس پر اے جی نے بتایا کہ وہ ضمانت پر ہے اور ہم نے ضمانت منسوخی کی درخواست دے رکھی ہے۔ خطرناک ترین دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کیا یہ اڈیالہ جیل جوڈیشل ریمانڈ پر گئے؟ لاء اینڈ آرڈر صورتحال کا کیا مطلب ہے کیا وہ جیل کے اندر سے حالات خراب کرسکتا ہے۔

اے جی نے کہا کہ ان کے باہر آنے کی صورت میں ایسا کہا تھا وہ مستقبل قریب میں خطرہ بن سکتا تھا۔ اس آرڈر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس میں استدعاء کی گئی تھی ان حالات میں نظربندی ختم کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔ 23 دسمبر 2014ء کو سیکرٹری داخلہ کو سیکشن تھری سکس ایم پی او کے تحت درخواست دی گئی۔ 25 دسمبر 2014ء کو ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی گیئی۔

ملزم ایک مقدمے میں ضمانت پر ہے اور دوسرے مقدمے کی وجہ سے اسے نظربند کیا گیا تھا۔ ملزم کی طرف سے کہا گیا کہ بھارتی واقعہ کے حوالے سے ایک بھی شکایت پاکستان کے کسی حصے میں داخل نہیں کی گئی تھی۔ بھارتی پراپیگنڈے کی وجہ سے اسے ملوث کیا جارہا ہے اور نظربند کیا گیا ہے۔ جب ایک شخص پہلے ہی چھ سال سے جیل میں ہے تو وہ کیسے کسی معاملے میں ملوث ہوسکتا ہے اسلئے نظربندی ختم کی جائے۔

اس گراؤنڈ پر نظربندی ختم کی گئی اور مدعاء علیہان کو نوٹس جاری کئے گئے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ دلائل تفصیل سے سماعت کئے گئے۔ ہماری رٹ پٹیشن کو قابل سماعت ہونے سے انکار کردیا اور درخواست خارج کردی۔ ایم پی او آرڈر کو شوکاز نوٹس قرار دیا گیا۔ شوکاز نوٹس کے حوالے سے ان کے وکیل ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ لاء افسر کی تیاری نہیں تھی جس کی وجہ سے عدالت نے نظربندی کے احکامات معطل کردئیے۔

15 جنوری 2015ء تک سماعت ملتوی کی گئی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آرڈر 15 جنوری کو ویسے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ افراسیاب نے کہا کہ 17 جنوری کی تاریخ بنے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ماتحت عدالت میں کیا ہوا ہے وہ بتلادیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ عدالت نے جلدی میں سب کچھ کیا ہے یہ صرف آبزرویشن ہے جمعہ کو نوٹ جاری ہوتا ہے‘ ہفتہ اور اتوار کو تعطیل کی وجہ سے معاملہ پیر تک چلا جاتا ہے۔

سٹینڈنگ کونسل جدون نے بتایا کہ ہائیکورٹ نے جمعہ کو تین سے چار بجے کے درمیان آرڈر جاری کیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت نے لکھا ہوا ہے کہ آپ نے ان کی معاونت نہیں کی۔ آپ ہائیکورٹ سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ کردے۔ بادی النظر میں آپ شفافیت کے حوالے سے بتائیں۔ سماعت پراپر طریقے سے نہیں ہوئی ہے مسئلہ آرہا ہے‘ 30 روز ختم ہونے میں ابھی وقت پڑا ہے عجلت میں جج صاحب نے بظاہر فیصلہ کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا عدالتوں کے کسی ایک فیصلے کا حوالہ دی سکتے ہیں کہ جس کے تحت 30 روز کا وقت ہو اور وقت کی موجودگی کے باوجود اور اس سے قبل ہی اسے ختم کرنے کی درخواست پر اس کا فیصلہ دے دیا ہو۔ جسٹس جواد نے کہاکہ عدالت نے تو فیصلہ ہی کردیا ہے کہ آرڈر ہی غلط ہے۔ جمعہ کے دن آرڈر جاری ہوا‘ ہفتہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے رخصت ہوتی ہے اور اتوار کو ویسے ہی چھٹی ہوتی ہے اتنی عجلت میں مجھے ضرور محسوس ہوئی ہے‘ تجویز یہ ہے کہ ہائیکورٹ کو بھجوادیتے ہیں کہ وہ اسی ہفتے اس کا فیصلہ کردے۔

افراسیاب نے کہا کہ عدالت نے یہ فیصلہ اسی لئے دیا ہے کہ جج صاحب نے رخصت پر جانا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ متبادل جج بھی ہوتے ہیں چھٹیوں سے قبل فیصلے ضرور ہوتے ہیں اور کام کیا جاتا ہے۔ 15 جنوری 2015ء تک کیس کی سماعت ملتوی کیا جانا مجھے درست نہیں لگتا اور عبوری ریلیف کے طور پر ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ان کا خیال ہوگا کہ 12جنوری 2015ء تک وہ چھٹی پر ہوں گے اسلئے 15 جنوری کی تاریخ مقرر کردی اب تو ہائیکورٹ میں مزید چار سے پانچ جج کام کررہے ہیں لہٰذا ہائیکورٹ کو فیصلے کیلئے بھجوادیتے ہیں۔

میرٹ پر فیصلے ہوئے بغیر یہ کیس ہمارے پاس آیا ہے۔ ہم اسلام آباد ہائیکورٹ سے پوچھ لیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ 25 دسمبر کو درخواست دائر ہوتی ہی ایک ہفتہ تو لگ ہی جاتا ہے مگر یہاں تو فیصلہ جلد ہورہا ہے۔ افراسیاب نے کہا کہ فیصلہ سیکرٹری داخلہ نے کرنا تھا میں نے معاملہ بھجوادیا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ بندہ بنچ میں نہ بیٹھے یہ ہوتا رہتا ہے۔

پرویز مشرف نظرثانی کیس میں بھی اعتراض کیا گیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ رٹ پٹیشن دائر کرنا آپ کا حق تھا اور اس کی سماعت بھی بنیادی تھی۔ جہاں آزادی کا معاملہ ہو وہاں ایک سیکنڈ انتظار کئے بغیر فیصلہ ہونا چاہیے مگر اس مقدمے میں وفاق کو مناسب موقع نہیں ملا ۔ افراسیاب نے کہا کہ ان کو نوٹس جاری کردیئے تھے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس سٹینڈنگ کونسل کا دفتر عدالت عالیہ میں ہے ہم سو سٹینڈنگ کونسل کو بلا لیتے ہیں ہر جج کا انداز اور اسلوب اپناہے انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ عدالت عالیہ میں واقع دفتر میں موجود سٹینڈنگ کونسل کو بلا کر سن لیا جائے میں چاہتا ہوں کہ وفاق اور آپ کو سن کر فیصلہ کیا جانا چاہیے میرٹ پر فیصلہ نہیں ہوا ذاتی طور پر سوچتا ہوں سارے آئین کی افادیت ہے آرٹیکل 9 خصوصی آرٹیکل ہے جو زندگی کے تحفظ اور آزادی سے متعلق ہے کسی اور آرٹیکل کی اتنی اہمیت نہیں جتنی آرٹیکل 9کی ہے 1898 میں ضابطہ فوجداری بنا تھا ہم محکوم تھے اور آئین بنا نہیں تھا کوئی اور استعمال ہم پر حاکم تھا 1973ء کا آئین بنا اور بنیادی حقوق دے دیے گئے 1998ء کا ضابطہ فوجداری آئین 1973کے تناظر میں پڑھنا چاہیے فریقین کو مناسب سماعت کا موقع دیا جانا ضروری ہے ۔

جسٹس جواد نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ چونکہ مناسب سماعت نہیں ہوئی ہے اس پر بھی سماعت کی جائے افراسیاب نے کہا کہ ایک طرف ضمانت حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف نظر بندی اور نیا جھوٹا مقدمہ درج ہوتا ہے اس کو روکا جائے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انگریزی کی وجہ سے سوال ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے چھ سال سے وہ جیل میں بیٹھا ہے ڈسٹرکٹ جسٹریٹ مجھ سمیت اٹارنی جنرل کو بھی انگریزی نہیں آتی مجسٹریٹ کو شک کا فائدہ دینا چاہیے ماضی استعماری کے طور پر لکھنا چاہیے تھا ملزم تو جیل میں ہے اس بارے میں ہم آرڈر میں نہیں لکھوا رہے ہیں ۔

افراسیاب نے کہا کہ اس کیس کو 12 جنوری کو سماعت کے لئے لگانے کا کہا جائے ۔ جسٹس جواد نے آرڈر لکھوایا کہ یہ آج سماعت کے لیے رکھا گیا تھا اور ذکی الرحمن لکھوی کو اڈیالہ جیل میں نوٹس بھجوائے گئے تھے ان کی طرف سے افراسیاب نے وکالت نامہ جمع کروایا اٹارنی جنرل اور افراسیاب کے دلائل کو سننا ہے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دسمبر 2014ء کا جاری کردہ ہائی کورٹ کا عبوری حکم بغیر وفاق کو سنے جاری کیا گیا ہے اور یہ جمعہ کا دن تھا اور یہ حکم تین سے چار بجے سہ پہر کو جاری کیا گیا وفاق کو نوٹس جاری کیا گیا اگلے دن کے لیے جو ہفتہ کا دن تھا اس لئے چھٹی کی وجہ سے سٹینڈنگ کونسل میں پیش تو ہوئے ان کی تیاری نہیں تھی وہ سیکرٹری داخلہ سے چھٹی کی وجہ سے ہدایات موصول نہ کرسکے اور باقاعدہ سماعت نہ ہوسکی ۔

فریقین مقدمہ اس بات پر رضا مندی ہیں کہ عبوری حکم مناسب سماعت نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیا جائے میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ دیا جائے ہم 29 دسمبر 2014ء کا ہائی کورٹ کا فیصلہ اتفاق رائے سے کالعدم قرار دیتے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دونوں فریقین پیش ہوں اور 12 جنوری 2015ء کو پیش ہوں ۔ رٹ پٹیشن کا فیصلہ فریقین کو سن کر کیا جائے وفاقی حکومت بھی پیش ہو اس حکم کی کاپی رجسٹرار ہائی کورٹ کو ارسال کی جائے اور وہ اس معاملے کو چیف جسٹس ہائی کورٹ کو پیش کریں تاکہ وہ کیس کو سماعت کے لیے مقرر کرسکیں وفاقی حکومت کی درخواست ان شرائط بالا پر منظور کرتے ہوئے نمٹائی جاتی ہیں ۔

اے جی نے کہا کہ اس کیس کو اگلے ہفتے لگایا جائے افراسیاب نے کہا کہ اس مقدمے پر حکومت اکتفا کرے اور نیا جھوٹا کیس درج نہ کرایا جائے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم میرٹ پر بات نہیں کرسکتے آپ فکر نہ کریں عدالتیں موجود ہیں اور سب کے ساتھ انصاف ہوگا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی پیر کو سیر حاصل بحث کرکے عدالت فیصلہ کردے گی جو متاثر ہوا وہ سپریم کورٹ آسکتا ہے ابھی بھی اداروں میں روایتی دینی اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :