ارکان قومی اسمبلی کا ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد اور پختونوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا مطالبہ، پختونوں کے خون کا ازالہ نہ کیا گیا تو نتائج بھیانک ہوں گے،حاجی غلام احمد بلور، افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے طریق کار مرتب کرنے کا بھی مطالبہ،قومی اسمبلی میں سانحہ پشاور پر بحث

جمعرات 8 جنوری 2015 09:18

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8 جنوری۔2015ء )ارکان قومی اسمبلی نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد اور پختونوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پختونوں کے خون کا ازالہ نہ کیا گیا تو نتائج بھیانک ہوں گے اور زور دیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے طریق کار مرتب کیا جائے۔قومی اسمبلی میں سانحہ پشاور پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی غلام احمد بلور نے کہا کہ خیبر پختونخواہ دہشتگردی کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے ہر جگہ دھماکے ہورہے ہیں بازاروں، مساجد اور اب سکولو ں میں شروع ہوئے ، سانحہ پشاور کے بعد پورا شہر تباہی و بربادی کا منظر پیش کررہا تھا معصوم بچوں کے جنازے ہر گلی سے نکلے، دہشتگردوں نے پشاور میں ایک نئی کربلا رقم کی، آئینی ترمیم بل پر سب کا مشکور ہوں جس نے ووٹ دیا ان کا اور جس نے نہیں دیا ان سب کا مشکور ہوں کہ دہشتگردی کیخلاف ایک منظم پالیسی بنائی گئی ہے ملک میں امن کی خاطر قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس بل کے حق میں ووٹ دیا تاکہ دہشتگردی کے گند کو ملک کے کونے کونے سے نکالا جائے ۔

(جاری ہے)

فاٹا کے رکن قومی اسمبلی جی جی جمال نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ سنگین ہے یہ معاملہ حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے اور ریاست کو بذات خود خطرہ ہے دہشتگردی سے جس کے لئے ووٹ دیا دہشتگردی بڑھتے بڑھتے اب معصوم جانوں تک پہنچ گئی ہے 80کی دہائی سے جاری 39سالہ جنگ معصوم بچوں تک پہنچ گئی بے روزگاری، بھوک ، اور آپریشن ختم کرنے سے دہشتگردی ختم کی جاسکتی ہے اگر پختون کے زخم پر مرہم پٹی نہ رکھی گئی اور ان کے خون کا ازالہ نہ کیا گیا تو اس کے نتائج بھیانک ہوں گے ۔

شمال مشرقی سرحد کے لیے محافظ سب کو برداشت کرتے ہیں لیکن یہ کبھی برداشت نہیں کرتے کہ وہ ذلیل ہوجائے اس کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا اس کے بعد فاٹا اراکین اپنا واک آؤٹ جاری رکھے ہوئے ایوان سے باہر جائینگے ۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے بجٹ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سانحہ پشاور ایسا واقعہ ہے جو کبھی نہیں بھول سکتے اور سالوں تک پوری قوم کی آنکھوں میں جھلکتے رہیں گے جو قوم کا سرمایہ تھا جتنی بھی تقاریر سولہ دسمبر کے حوالے سے ممبران قومی اسمبلی نے کیں مرتب کرکے شہداء کے والدین تک پہنچائی جائیں، آئینی ترامیم بل میں سینٹ میں رضا ربانی نے جس طرح اپنے جذبات پر قابو نہ پایا کیونکہ آئین میں ملٹری کو رٹس کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن ملک کی خاطر سب نے حمایت کی ہے حکومت اب تک اسے کسی خاص علاقے کا مسئلہ سمجھتی ہے لیکن اب دہشتگردی کو قومی مسئلہ قرار دیکر پوری قوم اور سیاسی و عسکری قیادت ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہے جو خوش آئند ہے ، چھ دسمبر کو آئینی ترمیم بل کا قانون پاس کیا گیا جو کہ اعتزاز احسن شہید کی پہلی برسی کا دن بھی تھا جنہوں نے 900معصوم بچوں کی جان بچا کر اپنی جان کی قربانی دی اس مسئلے کا حل مسلسل توجہ اور قانون پر عملدرآمد ہے ایسا نہ ہو کہ کل پھر کچھ حلقوں کے بعد خاموشی چھا جائے جو ہم نہیں چاہتے جو پارٹیاں اس بل کے ووٹ میں موجود نہیں تھے لیکن ان کے احساسات اے پی سی اجلاس میں اس بل کے ساتھ مکمل حمایت تھی ان کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں اور ہم اس میں بھی ان کے ساتھ ہیں، وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے بھی اپنے خطاب میں سب کوساتھ لے جانے کی بات نہیں کی لیکن اس میں سول سوسائٹی کا بھی اہم رول ہے وہ بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں۔

دہشتگردی کیخلاف ملٹری کورٹس کے قیام کا بل منظور ہوگیا لیکن اس سے پہلے بھی بہت سے قوانین پاس کئے گئے ہیں جس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پھر نتائج ہماری مرضی کے برعکس آئینگے یہ جنگ لمبے عرصے تک چلے گی اس میں موجودہ حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سانحہ پشاور کے واقعہ میں جو کوتاہیاں ہوئی ان کو کڑی سزا دینی چاہیے صوبائی حکومت کواس پر جواب دینا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ پہلے سے کوئی ٹریٹ موجود تھی جوقانون پاس کیا گیا تو ملٹری کورٹس سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پختون قوم کو دہشتگردی کے واقعات میں گرفتاریاں کی جارہی ہیں جس پر ہمیں تحفظات ہیں فاٹا اور سیٹل ایریا کے تمام پختون انتظامی لحاظ سے الگ ہیں لیکن آواز ایک ہے جس کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اٹھاتے رہیں گے امن کیلئے محدود علاقے کا تعین کرنا ناکافی ہے اس کے لئے خطے میں امن ضروری ہے جس میں افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات ضروری ہے افغان مہاجرین پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں اور آج تک پاکستان اور افغانستان مہاجرین کے درمیان کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا یہ معاہدہ یو این ایچ سی آر کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے جو 2015ء میں ختم ہورہا ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر واپس بھیجنے کیلئے بھرپور طریقہ کار مرتب کیا جائے ملک اب تک تمام دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں ، خود کش دھماکے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے پختون کے حقوق اور وسائل کا خیال نہ رکھا گیا تو راستہ محدود ہوجائے گا پختون میں اس ملک کے باشندے ہیں اور محب وطن ہیں ان کا خیال رکھا جائے ۔