21ویں آئینی ترمیم، 8جنوری کو اسلام آباد میں دینی جماعتوں کا اجلا س طلب،دینی مدارس کو ہدف بنانے کی کوشش کی گئی یا 21ویں آئینی ترمیم کو مذہبی طبقات کی مشکیں کسنے کیلئے استعمال کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار حکومت ہوگی،قاری حنیف جالندھری،قومی اتفاق رائے سے قبل کی جانے والی قانون سازی مزید خرابی کا باعث بنے گی،وزیرداخلہ نے فون پر یقین دہانی کرائی کہ یہ قانون مدارس اور دینی لوگوں کیخلاف استعمال نہ ہوگا ، میں نے بتایا کہ کچھ مدارس کیخلاف کارروائی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے،کوئی مدرسہ دہشتگردی،انتہا پسندی میں ملوث تھا نہ ہے اور نہ ہوگا،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل کی ملتان میں ہنگامی پریس کانفرنس

بدھ 7 جنوری 2015 09:56

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 جنوری۔2015ء)وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری نے 8جنوری کو اسلام آباد میں دینی جماعتوں کا اجلا س بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دہشتگردی کی آڑ میں مذہب ودینی مدارس کو ہدف بنانے کی کوئی کوشش کی گئی یا 21ویں آئینی ترمیم کو مذہبی طبقات کی مشکیں کسنے کیلئے استعمال کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔

دہشتگردی بارے جلد بازی میں قانون سازی افسوسناک اور معاملے کو مشکوک بنانے کی کوشش ہے،قومی اتفاق رائے پیدا ہونے سے قبل کی جانے والی قانون سازی حالات کی مزید خرابی کا باعث بنے گی۔وزیرداخلہ نے فون پر یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قانون دینی مدارس اور دینی لوگوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگا ، میں نے بتایا کہ کچھ دینی مدارس کیخلاف کارروائی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس پر انہوں نے کہا اس کو بند ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

کوئی مدرسہ دہشتگردی،انتہا پسندی میں ملوث تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔یہ بات انہوں نے منگل کی شب ملتان پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس میں کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے حلاف کسی بھی قانون سازی کو محض مدہب تک محدود کرنے سے سقم رہ جائے گا جس کا خمیازہ ہمیشہ بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف کسی بھی کارروائی میں تفریق نہ برتی جائے اور حکومت 21ویں ترمیم پر نظرثانی کرے ۔

ہم مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور ہر فورم پر مدارس اور مذہبی جماعتوں کی ترجمان پر مولانا کے شکرگزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق المدارس العربیہ دینی مدارس اورجامعات کی بڑی تنظیم ہے جس کے18ہزار مدارس اور 23لاکھ طلباء وطالبات اس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وفاق المدارس نے ملک کے اکابرین اورعلماء پر مشتمل وفاقی مجلس عاملہ اور ملک کی اہم شخصیات،ممتاز علماء کرام و مشائخ عظام کا ہنگامی اجلاس 8جنوری بروز جمعرات اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے،جس میں موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا،تاہم فوری طورپر ہم نے ملک بھر کے جید علماء کرام سے طویل مشاورت کے بعد مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس،مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صدر متحدہ مجلس علماء،مولانا انوارالحق نائب مہتمم جامعہ حقانیہ اور ملک بھر کے لاکھوں علماء کرام ومساجد کے امہ وخطباء ومدارس دینیہ کے ذمہ داران کی طرف سے ایک مشترکہ مؤقف پر اتفاق کیا ہے،اس ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے اس مشترکہ قومی مؤقف کا اعلان کیا جارہا ہے کہ اگر دہشتگردی کی آڑ میں مذہب ودینی مدارس کو ہدف بنانے کی کوئی کوشش کی گئی یا 21ویں آئینی ترمیم کو مذہبی طبقات کی مشکیں کسنے کیلئے استعمال کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار حکومت ہوگی،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی بارے قانون سازی میں جلد بازی سے کام لینا افسوسناک ہے جو پورے معاملے کو مشکوک بنا رہا ہے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معاملے پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرکے ایسی پالیسی تشکیل دی جائے جو ملک وقوم کے مفاد میں ہو،اس لئے اب بھی 21ویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی جائے،انہوں نے کہا کہ اس وقت جس طرح دہشتگردی کو صرف مذہب کے ساتھ نتھی کرکے قانون سازی کی جارہی ہے اس میں ایسے قانونی سقم پیدا ہوجائیں گے جو پاکستان کیلئے ہمیشہ مسائل ومشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔

مولانا جالندھری نے واضح کیا کہ ہم دہشتگردی کیخلاف قومی سطح پر کی جانے والی ہر کوشش کے حامی ہیں تاہم ہمارا مطالبہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف تشکیل دئیے جانے والے ایکشن پلان میں مذہبی،لسانی،علاقائیت اور سیاست کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں برتی جانی چاہئے۔قاری جالندھری نے مزید کہا کہ ہم ملک بھر کی مذہبی قیادت ،امہ وخطباء،دینی مدارس اورپوری قوم کی طرف سے موجودہ حالات میں مولانا فضل الرحمان کی حقیقت پسندانہ مؤقف کی تائید کرتے ہیں،مولانا نے جس طرح ہر فورم پر دین اسلام،مدارس پاکستان کے مذہبی طبقات اور پاکستان کے مفادات کی ترجمانی کی ہے اس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں اور مولانا کے جرات مندانہ کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرداخلہ نے کچھ دیر قبل فون پر یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قانون دینی مدارس اور دینی لوگوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگا اور دینی مدارس کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں بتایا ہے کہ ملک کے مختلف مقامات پر کچھ دینی مدارس کیخلاف کارروائی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس پر انہوں نے کہا اس کو بند ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دینی مدارس کے بارے میں مشرف کے دور میں بھی ایسے ہی کہا گیا تھا کہ کچھ مدارس جو ہیں وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،توہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مدارس کی نشاندہی کرے اور اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو وہ ان کیخلاف کارروائی کیسے کرے گی۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کوئی مدرسہ دہشتگردی،انتہا پسندی میں ملوث تھا نہ ہے اور نہ ہوگا،انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ وفاق المدارس مدارس کی فنڈنگ چیک کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے،حکومت کو چاہئے کہ وہ مدارس کے بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے اور وزیرداخلہ نے خود کہا ہے کہ کچھ مسلمان ممالک مدارس کو فنڈنگ کرتے ہیں تو وہ اس کی بھی وضاحت کریں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ٹکراؤ نہیں کریں گے،ہم اس ملک کے آئین کا احترام کرتے ہیں اور اگر ملک کا آئین موجودہ صورتحال میں فوجی عدالتوں کی اجازت دیتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں،تاہم یہ مدارس ومذہبی لوگوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو وزیرداخلہ پراعتماد نہیں تو انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں ،ہمیں وزیرداخلہ پر مکمل اعتماد ہے۔