سپریم کورٹ ، دہشت گردی کے مجرم کی اپیل مسترد ،سزائے موت کے 3قیدی بری، لاہور ہائیکورٹ نے بھی4سزائے موت کے قیدی رہا کر دیئے ،1کی سزا روک دی

منگل 6 جنوری 2015 09:31

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن ۔6 جنوری۔2015ء )سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے مجرم کی اپیل مسترد کردی ، عدالت نے کہا ہے کہ مجرم مفرور ہے جب تک وہ اپنی گرفتاری نہیں دے دیتا اس وقت تک اس کو اپیل کا کوئی حق نہیں ہے ،یہ حکم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جاری کیا ہے ۔ پیر کے روز جب سماعت شروع ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا کہ مجرم عبدالقیوم کیخلاف دہشتگردی کی دفعات کے مقدمات درج ہیں تاہم وہ کافی عرصے سے مفرور ہے اور گرفتاری نہیں دے رہا جبکہ مجرم کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پولیس جان بوجھ کر اس معاملے کو خراب کررہی ہے اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر اسے مفرور قرار دے رہی ہے اس پر عدالت نے کہاکہ مجرم گرفتاری دے اس کے بعد اس کی اپیل کو سنا جائے گا عدالت نے بعد ازاں مجرم کی اپیل مسترد کردی ۔

(جاری ہے)

ادھرسپریم کورٹ میں ڈکیتی کے دوران قتل کا مرتکب ہونے والے ملزم غلام عباس کی سزائے موت جبکہ دو ملزمان افتخار چاند اور ارشد مسیحی کی عمر قید کو برقرار رکھا ہے جبکہ تین ملزمان منیر احمد ، شوکت علی اور عرفان جاوید کو عدم ثبوتوں کی بناء پر بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں ، یہ احکامات پیر کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے جاری کئے ہیں ۔

ملزمان کی جانب سے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور دیگر پراسکیوشن کے افسران پیش ہوئے ہیں ۔ لطیف کھوسہ نے موقف پیش کیا کہ افتخار چاند اور ارشد مسیحی کو بری کیا جائے ، غلام عباس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیاجائے جبکہ مذکورہ بالا تین ملزمان کو بھی بری کیاجائے جس پر عدالت نے درخواست جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے غلام عباس کی سزائے موت برقرار رکھی جبکہ دو ملزمان افتخار چاند اور ارشد مسیحی کی عمر قید کو برقرار رکھا ہے جبکہ تین ملزمان منیر احمد ، شوکت علی اور عرفان جاوید کو عدم ثبوتوں کی بناء پر بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں ۔

واضح رہے کہ ڈکیتی کا یہ واقعہ سیالکوٹ کینٹ میں پیش آیا تھا اور یہ وقوعہ اپریل 1997ء میں ہوا تھا جس میں 70سالہ شخص کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کردیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ جن تین ملزمان کو بری کیا گیا ہے وہ عمر قید کی حد تک سزا بھی بھگت چکے ہیں ۔ سردار لطیف خان نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تینوں ملزمان کو سترہ سال چھ ماہ بعد بری کیا گیا ہے اس حد تک تو وہ عمر قید بھی بھگت چکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ فوجداری نظام میں اس حد تک تبدیلیوں کی ضرور ضرورت ہے کہ لوگوں کو جلد سے جلد انصاف مل سکے اور ذمہ داروں کو ان کے کئے کی سزا مل سکے ۔جبکہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے سزائے موت کے 4 ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ تفصیلا ت کے مطابق لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس عباد الرحمان اور جسٹس قاضی محمد امین نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے جرم کے 4 افراد کو دی گئی سزائے موت کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔

ہائی کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے پھانسی کا سزائیں انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ہی سنائی گئیں لہذا چاروں ملزمان حبیب اللہ، فضل حمید، طاہر حسین اور حافظ نصیر کو فوری طور پر باعزت رہا کیا جائے۔واضح رہے کہ 26 فروری 2002 میں راولپنڈی کے تھانہ پیر ودھائی کی حدود میں امام بارگاہ شاہ نجف پر ہونے والے خود کش حملے کے الزام میں گرفتار 4 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 9 دسمبر 2004 کو پھانسی کی سزا سنائی تھی، حملے میں 11 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہونے کی بنیاد پر دہشتگرد محمد فیض کو 14 جنوری کو پھانسی پر لٹکانے سے روک دیا ، محمد فیض پر حساس اداروں کے اہلکاروں کو قتل کرنے کا الزام ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشتگرد محمد فیض نے اپیل دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سزائے موت کیخلاف اس کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے مگر اس پر فیصلے سے پہلے ہی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیئے اور اب اسے چودہ جنوری کو پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے عدالت نے معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا کہ جب تک کسی ملزم کی اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا اسے پھانسی پرکیسے لٹکایا جاسکتا ہے آئی جی جیل خانہ جات ، سپرٹینڈنٹ جیل فیصل آباد نے عدالت کو تحریری یقین دہانی کرائی کہ دہشتگرد محمد فیض کی اپیلوں کا عمل مکمل ہونے کے بعد قانون کے مطابق اس کی سزا پر عملدرآمد کیا جائے گا