ضرب عضب اب صرف فوجی نہیں قومی آپریشن بن گیا ہے، عاصم سلیم باجوہ ، سانحہ پشاور کے بعد فوجی کارروائی کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے، چار ہزار افراد گرفتار ہوئے ہیں، فوجی کارروائی نے شدت پسندوں کو خوفزدہ کر دیا ہے،آپریشن کی تکمیل کی تاریخ نہیں دے سکتے، فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے یہ عظیم تر جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے جس کا فیصلہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے مفاد میں کیا ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

اتوار 4 جنوری 2015 10:51

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جنوری۔2015ء)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف گذشتہ برس شروع کیے جانے والا آپریشن ضرب عضب اب قومی آپریشن کی شکل اختیار کر گیا ہے، سانحہ پشاور کے بعد فوجی کارروائی کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے اور قبائلی علاقہ جات سے باہر ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہزاروں کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں چار ہزار افراد گرفتار ہوئے ہیں، فوجی کارروائی نے’ان شدت پسندوں کو خوفزدہ کر دیا ہے،فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے یہ عظیم تر جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے جس کا فیصلہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے مفاد میں کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو بی بی سی اردو سے خصوصی بات چیت میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر ملک کی سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے ظاہر ہے کہ وہ فوج کی جانب سے ایک علاقے میں شروع کی گئی کارروائی آج ملک بھر کی لڑائی بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

پشاور کے واقعے کے بعد خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

ضربِ عضب سے پہلے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر فاٹا سے باہر پاکستانی علاقوں میں بھی ہزاروں کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں چار ہزار مبینہ دہشت گردوں، ان کے مددگاروں اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ ایک جمہوری ملک میں فوجی عدالتوں کی کیا جگہ ہے، فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ عظیم تر جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے جس کا فیصلہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے مفاد میں کیا ہے۔

میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ان بیس نکات میں سے صرف ایک نکتہ ہے جو قومی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے کوئی واضح فرق نہیں پڑے گا اور ’واحد فرق ان عدالتوں میں فوجی نظم و ضبط کی موجودگی کا ہوگا۔‘ ترجمان پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں گذشتہ برس جون میں شروع کیے جانے والے آپریشن ضربِ عضب کو ملک سے ’دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے سے پہلے بھی کارروائیاں تیزی سے جاری تھیں لیکن اس واقعے کے بعد خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے ۔ فوج کی جانب سے اب تک ضربِ عضب میں ایک ہزار سے زیادہ شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے گئے ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ ضربِ عضب سے پہلے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر فاٹا سے باہر پاکستانی علاقوں میں بھی ہزاروں کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں چار ہزار مبینہ دہشت گردوں، ان کے مددگاروں اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ سوات میں فوجی آپریشن کے برعکس قبائلی علاقہ جات میں کارروائی کے بارے میں فوج کیوں کھل کر معلومات نہیں دیتی، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں آپریشن نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سوات میں ہونے والی کارروائی کم پیچیدہ تھی اور ’سوات کی سرحد نہ تو افغانستان سے لگتی ہے، نہ ہی وہاں اتنی تعداد میں دہشت گرد تھے اور نہ ہی ان دہشت گردوں میں اتنے زیادہ غیر ملکی شدت پسند تھے۔‘ یہ دونوں آپریشن ( سوات اور شمالی وزیرستان) نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔سوات میں ہونے والی کارروائی کم پیچیدہ تھی۔ سوات کی سرحد نہ تو افغانستان سے لگتی ہے، نہ ہی وہاں اتنی تعداد میں دہشت گرد تھے اور نہ ہی ان دہشت گردوں میں اتنے زیادہ غیر ملکی شدت پسند تھے۔

اس سوال پر کہ فوج اس صورتحال میں آپریشن سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے کہ جب شدت پسند گروپوں کے مرکزی رہنما اور قائدین سرحد پار چلے گئے ہیں، میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ شدت پسند تنظیموں کی قیادت کا ملک چھوڑ کر افغانستان بھاگ جانا بھی ضربِ عضب کے کارگر ہونے کی دلیل ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ فوجی کارروائی نے’ان شدت پسندوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔

‘میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق پشاور میں سکول پر حملہ ان ’بیتاب‘ طالبان کا ردعمل تھا جو فوجی آپریشن سے متاثر ہوئے ہیں۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپریشن کے آغاز کے بعد طالبان کے جیسے ردعمل کا خدشہ تھا، اس پیمانے کا ردعمل سامنے نہیں آیا جو کہ اس آپریشن کی کامیابی کی ایک اور دلیل ہے۔میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ وہ آپریشن ضربِ عضب کی تکمیل کی تاریخ دینے سے قاصر ہیں اور ’یہ اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہم اس علاقے سے شدت پسندی کا خاتمہ کر لیں گے۔