خصوصی فوجی عدالتوں کو مذہب اور فرقہ کا نام استعمال کرتے ہوئے ہتھیاراٹھانے، بغاوت،مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں،اغوا برائے تاوان،فوجی و سول تنصیبات اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں کے ملزمان اور اس مقصد کیلئے سازش اور معاونت کرنیو الوں کے خلاف مقدمات سننے کا اختیار ہوگا،وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مختلف شقوں میں دیئے گئے جرائم پر بھی کارروائی کر سکیں گی ، وفاقی حکومت سے پیشگی اجازت ضروری نہ ہوگی، وفاقی حکومت دیگر عدالتوں میں چلنے والے اس قسم کے مقدمات بھی ان فوجی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی،آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کا متن، لفظ ”فرقہ“ سے مراد مذہبی فرقے ہیں، قانون کے تحت الیکشن کے لئے رجسٹرڈ کوئی سیاسی جماعت مراد نہیں،بل میں وضاحت

اتوار 4 جنوری 2015 10:51

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جنوری۔2015ء )قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے پاکستان آرمی (ترمیم) ایکٹ 2015ء کے مطابق خصوصی فوجی عدالتوں کو مذہب اور فرقہ کا نام استعمال کرتے ہوئے ہتھیاراٹھانے،بغاوت،مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں،اغوا برائے تاوان،فوجی و سول تنصیبات اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں کے مرتکب ملزمان اور اس مقصد کیلئے سازش اور معاونت کرنیو الوں کے خلاف مقدمات سننے کا اختیار ہوگاجبکہ وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مختلف شقوں میں دیئے گئے جرائم پر بھی کارروائی کر سکیں گی ، اس مقصد کیلئے وفاقی حکومت سے پیشگی اجازت ضروری نہ ہوگی، وفاقی حکومت دیگر عدالتوں میں چلنے والے اس قسم کے مقدمات بھی ان فوجی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی۔

بل میں وضاحت کی گئی ہے کہ اس میں دیئے گئے لفظ ”فرقہ“ سے مراد مذہبی فرقے ہیں، قانون کے تحت الیکشن کے لئے رجسٹرڈ کوئی سیاسی جماعت مراد نہیں۔

(جاری ہے)

وزیر قانون پرویز رشید کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیمی بل کے متن کے مطابق ملک میں غیر معمولی حالات اور صورت حال دہشت گردی ،پاکستان کے خلاف جنگ او بغاوت وسرکشی ،پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے اقدامات،دہشت گرد گروپوں کی طرف سے مذہب یا کسی فرقے کے نام کا استعمال اور مسلح گروپوں ،ونگز اور ملیشیاز کے ارکان کے خلاف کارروائی سمیت مختلف جرائم کے ارتکاب پر تیزی سے ٹرائل کا تقاضا کرتی ہے۔

چونکہ اس وقت پاکستان کی سالمیت کو دہشت گردوں کی طرف سے درپیش غیر معمولی خطرے ،مذہب یافرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے یا مزاحمت اور مذہب یا فرقہ کے نام پر مقامی و غیرملکی وسائل سے کام کرنے والے گروہوں سے خطرات درپیش ہیں۔ ضروری ہے کہ ان دہشتگرد گروپوں جو مذہب یا فرقے کا نام استعمال کررہے ہیں ان میں سے جو پکڑے گئے یا مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے الے اداروں کی طرف سے پکڑے جائینگے ان کیخلاف اس ایکٹ کے تحت قائم عدالت میں مقدمات چلائے جائینگے آئین کا آرٹیکل 245مسلح افواج کو جنگ کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کا اختیار دیتا ہے اس قانون کو آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2015قرار دیا گیاہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا ترمیم شدہ ایکٹ میں دی گئی شقیں نفاذ کے بعد دو سال کیلئے موثر ہونگی اور اس عرصے کے بعد ختم ہوجائینگی تاہم پارلیمان کے ہر ایوان سے قرارداد کی منظوری کے ذریعے اس مدت کو توسیع دی جاسکتی ہے ۔

ترمیمی بل میں آرمی ایکٹ 1952کے سیکشن 2میں ترمیم تجویز کی گئی ہے اور سب سیکشن 1کی کلاز ڈی کے بعد شامل سب کلاز iiکے بعد نئی سب کلاز iiiشامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو کسی ایسے دہشتگرد گروپ یا تنظیم سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرے یا اس کے بارے میں معلومات ملے جو مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرتا ہوں اور پاکستان کیخلاف ہتھیار اٹھانے کا جنگ یا پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں یا پاکستان میں کسی سول یا فوجی تنصیب پر حملوں یا اغواء برائے تاوان یا کسی کو ہلاک یا زخمی کرنے کا ملزم یا دھماکہ خیز مواد ، آتشی اسلحہ ، دیگر آلات ، خود کش جیکٹس یا گاڑیاں رکھنے کا مرتکب یا ایسی غیر قانونی حرکات اور اقدامات کیلئے غیر ملکی یا مقامی ذرائع سے رقوم کی وصولی یا ریاست کیخلاف کسی اقدام یا کسی فرقہ ورانہ یا مذہبی اقلیت کیخلاف اقدام یا پاکستان میں عدم سلامتی کی صورتحال پیدا کرنے یا پاکستان کے اندر یا باہر اس قسم کے اقدامات میں ملوث ہو تو اس کیخلاف اس ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی ۔

خبر رساں ادارے کو موصولہ مسودہ کے مطابق بل کے تحت قائم کی گئی ایک اور ذیلی شق iv میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرنے والے کسی دہشتگرد گروپ یا تنظیم سے تعلق کا دعویدار ہو یا اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوں اور وہ تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 کے جدول کی سیریل نمبر (i)،(ii)،(iii)،(v)،(vi)،(vii)، (viii)،(ix)، (x)،(xi)،(xii)،( xiii) ،(xv)،(xvi)،(xvii) اور (xx) میں دیئے گئے جرائم کامرتکب ہو اس کیخلاف اس عدالت میں مقدمہ چلایا جائیگا اگر کوئی شخص ذیلی شق 3یا ذیلی شق 4 میں دیئے گئے جرائم کا مرتکب یا اس مقصد کیلئے امداد یا سازش کا مرتکب ہو اس کیخلاف اس عدالت میں مقدمہ چلے گا اور اس کارروائی کیلئے وفاقی حکومت سے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

بل میں وضاحت کی گئی ہے کہ اس ایکٹ میں جہاں بھی فرقے کا لفظ آیا ہے اس کا مطلب مذہبی فرقہ ہوگا ۔ملکی قانون کے تحت رجسٹرڈ کوئی سیاسی جماعت اس میں شامل نہیں بل کے تحت سب سیکشن 3میں ایک اور سب سیکشن 4کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو سب کلاز iiiیا ivکے تحت آنے والے جرائم کے مقدمات جو کسی اور عدالت میں زیر سماعت ہوں کو اس عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار ہوگا ۔

ایک او ر سب سیکشن 5میں کہا گیا ہے کہ سب سیکشن 4کے تحت منتقل مقدمات اس ایکٹ کے تحت چلائے جائینگے ۔خبر رساں ادارے کو موصولہ مسودہ کے مطابق سب سیکشن 6میں کہا گیا ہے کہ سب سیکشن 4کے تحت منتقل ہونے والے مقدمے میں قلمبند ہونے والے شواہد کا دوبارہ اصول ضروری نہیں ہوگا ۔ اس بل کے تحت آرمی ایکٹ کے سیکشن 60میں ترمیم کرتے ہوئے لفظ ”قانون“ کے بعد ”اور لاگوکسی اور قانون “کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں ۔

اس بل کے مقاصد اور وجوہات کے بارے میں بل کے ساتھ منسلک کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ غیرمعمولی صورتحال اور حالات دہشت گردی،پاکستان کے خلاف جنگ یا بغاوت و سرکشی اور پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی مذہب یا فرقہ کا نام استعمال کرنے والے دہشت گرد گروپ کی طرف سے درپیش خطرات کے تدارک کیلئے ان جرائم پر تیزی سے سماعت کیلئے خصوصی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔

اس کے تحت مسلح گروپوں، ونگز اور نیم عسکری گروپوں کے خلاف کارروائی بھی ضروری ہے۔پاکستان کی سالمیت کو مذہب یا فرقہ کے نام پر ہتھیار اٹھانے اور عسکریت پسندی میں ملوث ملکی و غیر ملکی ذرائع کے رقوم حاصل کرنے والے گروپوں سے سنگین خطرہ لاحق ہے جن میں وہ جنگجو بھی شامل ہیں جو مذہب یا فرقہ کانام استعمال کرتے ہیں ان سے قانون کے تحت نمٹنا ہے اس لئے یہ بل پیش کیا گیا ہے۔