ملزم کا شفاف ٹرائل نہ ہو تو ہائی کورٹ مداخلت کر سکتی ہے،فضل حق عباسی،علی ظفر،فوجی عدالتیں خصوصی اختیار کے تحت سزائیں سناتی ہیں ان کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا،فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کاحق ہوناچاہیے،کسی سویلین شہری کوفوجی خصوصی عدالت کے تحت سزادی جاتی ہے تواس کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کافیصلہ موجود نہیں ہے،صدر سپریم کورٹ بار ،سینئر قانون دان، خصوصی گفتگو

منگل 23 دسمبر 2014 08:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23دسمبر۔2014ء )لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کی جانب سے فوجی عدالتوں کے سزایافتہ ملزمان کی سزائے موت کے عمل درآمد روکے جانے کے فیصلے پرسینئر قانون دانوں نے کہاہے کہ اعلیٰ عدلیہ فوجی عدالتوں کے تحت سزایافتہ ملزمان کے مقدمات میں مداخلت نہ کرنے کے فیصلے دے چکی ہے تاہم آرٹیکل 10اے کے تحت اگر کسی ملزم کاشفاف ٹرائل نہ کیاگیاہواس پر ہائی کورٹ مداخلت کرسکتی ہے،فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کاحق ہوناچاہیے ، ان خیالات کااظہار صدر سپریم کورٹ بار فضل حق عباسی اور سینئر قانون دان علی ظفرایڈووکیٹ نے خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو میں کیاہے ، صدر سپریم کورٹ بار فضل حق عباسی کاکہناتھاکہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے فوجی عدالت کی جانب سے سزایافتہ ملزمان کے خلاف سزائے موت کی کارروائی روکنے کے لیے اپنااختیاراستعمال کیاہے،انھوں نے کہاکہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کاحق ہوناچاہیے جبکہ علی ظفرایڈووکیٹ کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس فیصلوں میں کہ چکی ہیں کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے ٹرائل شدہ ملزمان کے مقدمات ان کے دائرہ کارمیں نہیں آتے کیونکہ فوجی عدالتیں اپنے لوگوں کے خلاف ایک خصوصی اختیار کے تحت سزائیں سناتی ہیں اس لیے ان کوکہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتایہ خصوصی سزاآرمی ایکٹ کے تحت ہی دی جاتی ہے انھوں نے مزیدکہاکہ اگر کسی سویلین شہری کوایک فوجی خصوصی عدالت کے تحت سزادی جاتی ہے تواس کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کافیصلہ موجود نہیں ہے کہ اس صورت میں اسے کہاں رجوع کرناہوگافاضل وکیل کاکہناتھاکہ آئین کے آرٹیکل 10اے میں ملزمان کے شفاف ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے اگر فوجی عدالت کسی بھی طرح سے اس حق کومتاثر کرتی ہے یااس کے خلاف کوئی فیصلہ دیتی ہے توایسے فیصلے میں ممکن ہے کہ ہائی کورٹ بھی مداخلت کرسکے بہرحال یہ توطے شدہ امرہے کہ فیئر ٹرائل کاموقع دیناقرین آئین وقانون ہے اس کی خلاف وزری پر اعلیٰ عدلیہ کومداخلت کااختیار ہے ۔

(جاری ہے)

دہشتگردی کے مقدمے میں پانچ مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روک دیا ، فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔واضح رہے کہ پیرکولاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے جسٹس ارشد تبسم نے پانچ مجرموں کے ورثاء کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، مجرمان میں احسان عظیم، عمر ندیم، آصف ادریس، کامران اسلم اور عامر یوسف شامل ہیں جو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالت نے پانچ مجرموں کو سزائے موت سنا دی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس الزام میں سزا دی گئی۔ فوجی عدالت کی جانب سے سزا کے بعد اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ کسی فورم پر داد رسی نہیں کی جا رہی

متعلقہ عنوان :