چیئرمین تحریک انصاف کا متاثرین کی مدد کیلئے فنڈز غیر قانونی ،افغان مہاجرین کی واپسی،ایف سی کی صوبے کو واپسی،غیر رجسٹرڈ اور فرضی ناموں پر استعمال ہونے والی سموں کو بند کرنے کامطالبہ،سانحہ پشاور نے قوم کو متحد کردیا ،دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں،عمران خان،پولیس دہشتگردی کو کنٹرول نہیں کرسکتی،قبائلی علاقوں میں آپریشن کا اثر خیبرپختونخوا پر پڑ رہا ہے،خیبرپختونخوا پولیس کو انٹیلی جنس اور جدید نظام کی سخت ضرورت ہے،انٹیلی جنس کے بغیر ہم دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے،پریس کانفرنس

منگل 23 دسمبر 2014 08:32

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23دسمبر۔2014ء)پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے متاثرین کی مدد کیلئے فنڈز غیر قانونی ،افغان مہاجرین کی واپسی،ایف سی کی صوبے کو واپسی،غیر رجسٹرڈ اور فرضی ناموں پر استعمال ہونے والی سموں کو بند کرنے،پاک افغان بارڈر پرآمد ورفت کو روکنے اور قبائلی علاقوں سے لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرکے صوبے کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا،دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں،پولیس دہشتگردی کو کنٹرول نہیں کرسکتی،اس کی تربیت انہیں نہیں دی جاتی۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ سانحہ پشاور نے قوم کو متحد کردیا ہے،سانحہ پشاور کا پورے ملک پر اثر پڑا ہے اور اس سانحہ کے بعد قوم دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اگر ملک متحد ہوجائے تو دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا اثر خیبرپختونخوا پر پڑ رہا ہے،خیبرپختونخوا میں170دہشتگرد حملے ہوئے ہیں،خیبرپختونخوا پولیس کو انٹیلی جنس اور جدید نظام کی سخت ضرورت ہے،انٹیلی جنس کے بغیر ہم دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا پہلا مسئلہ دہشتگردی ہے،الزامات کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتا اور نہ ہی موجودہ صورتحال سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں،سانحہ پشاور پر مجھے بے انتہا تکلیف ہوئی ہے،یہ جنگ سب کی جنگ ہے اور پاکستانیوں کو مل کر لڑنا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کیلئے قبائلی لوگوں کو ساتھ ملانا ضروری ہے اور یہ اصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ایف سی کو اس کردار پر لے کر آئے جس کے لئے وہ بنی تھی،ایف سی صوبہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے بارڈر کی سیکورٹی کے لئے بنی تھی لیکن اب پورے ملک میں فرائض سرانجام دے رہی ہے،وفاق سے ہمارا پہلا مطالبہ ایف سی کی واپسی کا ہے کیونکہ پولیس بارڈر کی حفاظت کا کام نہیں کرسکتی اور پولیس کی تربیت سرحدوں کی حفاظت کیلئے نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اپنے نارمل فرائض بخوبی سر انجام دے رہی ہے،بارڈر پر ڈیوٹی ان پر اضافی بوجھ ہے،پولیس یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتی،پولیس دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔عمران خان نے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے اس کے علاوہ ہمارا مطالبہ ہے کہ غیر رجسٹرڈ سموں کو فوری طور پر بند کیا جائے اور اپنے نام پر جس کی سم نہ ہو اسے ایک جرم بنایا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ پاک افغان بارڈرطور خم پر500ویزے دئیے جاتے ہیں اور1500لوگ روز آتے ہیں جن کا یہ ہی پتہ نہیں کہ وہ کدھر جاتے ہیں،اس بارڈر کو کنٹرول کیا جائے اور غیر قانونی آمد ورفت کو روکا جائے کیونکہ دہشتگردی کو روکنے کیلئے بارڈر پر آمد ورفت کو روکنا ضروری ہے،طورخم سرحد پرآمد ورفت روکے بغیر دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ صوب ے میں17لاکھ افغان اور20لاکھ قبائلی علاقوں کے متاثرین ہیں اور صوبے پر شدید دباؤ ہے،صوبائی حکومت متاثرین کی مدد اپنے فنڈ سے کر رہی ہے وفاقی حکومت فوری مدد کرے کیونکہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے اور ہمیں متاثرین کی مدد کرنی چاہئے،متاثرین کو اضافی سہولیات دی جانی چاہئیں،متاثرین کی مدد نہ کی گئی تو وہ دہشتگردی کی طرف جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے پر پہلے ہی دباؤ ہے اور70فیصد انڈسٹری دہشتگردی کی وجہ سے بند ہے،صوبہ مزید مالی بوجھ برداشت نہیں کرسکتا اس لئے متاثرین کے لئے خیبرپختونخوا کو اضافی فنڈز دئیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ متاثرین سے لوگ پولیس میں بھرتی کئے جائیں یہ بارڈر پر ایف سی کی جگہ ہماری مدد کرسکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن کے قیام کیلئے ان لوگوں کو ساتھ ملانا ضروری ہے،وفاق کو لکھا ہے کہ فاٹا سے 5ہزار پولیس اہلکار بھرتی کرکے خیبرپختونخوا کے حوالے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں5لاکھ افعان مہاجرین غیر قانونی طور پر مقیم ہیں ان غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغانیوں کو فوری نکالا جائے اور 17لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر مقیم ہیں ان کی واپسی کیلئے پلان اور اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے۔انہوں نے کہا کہ سکول کھلنے سے قبل سیکورٹی کا جائزہ لیں گے،سکولوں کی اندرونی سیکورٹی زیادہ مؤثر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے،ہماری کوشش ہے کہ سکولوں کے اندر کسی کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ لوکل سیکورٹی پر نظر رکھے۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی خیبرپختونخوا نے ایک سسٹم وضع کیا ہے جس کے تحت سکول میں موبائل سسٹم سے ایک بٹن دبایا جائے گا جس پر تیار فورسز کو8سے10جگہ فوری پیغام ملے گا اور وہ فوری طور پر وہاں پہنچ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کا مخصوص ہونا ضروری ہے اور یہ تب ہوگا جب پولیس کے پاس بھی نظام ہوگا جو پولیس کے پاس نہیں ہے،وفاق جلد سے جلد پختونخوا پولیس کو جدید سازوسامان دے اورانٹیلی جنس فوری طور پر دی جائے،ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ فاٹا کے لوگ اپنے بلدیاتی نظام اور جرگے کے نظآم کو بحال رکھنا چاہتے ہیں اور تھانہ کچہری کا نظام نہیں چاہتے،قبائلیوں کو پاکستان کا مستقل حصہ بنانے کیلئے ان کے تحفظات اور خدشات دور کئے جاسکتے ہیں اور انہیں ان کا نظام دیا جاسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ قوم دہشتگردی سے مقابلے کا فیصلہ کرچکی ہے پشاور سانحے کا پورے ملک پر اثر پڑا ہے ،پولیس دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کا یہ اضافی بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاورمیں دہشت گردوں کی سفاکی کا نشانہ بننے والے آرمی پبلک اسکول کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور اس پر پوری قوم متحد ہے جب کہ قوم نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاہم یہ جنگ مشکل ہے لیکن اس میں فتح ناممکن نہیں اس لئے وفاقی حکومت سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کی مالی اور تکنیکی معاونت کرے۔ انہوں نے کہاکہ کہ آئی ڈی پیز کیلئے وفاق کوئی فنڈز نہیں دیتا، اس کا اضافی بوجھ صوبائی حکومت پر پڑتا ہے۔

خیبرپختونخوا اپنے بجٹ سے آئی ڈی پیز پر رقم خرچ کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو آئی ڈی پیز اور افغان مہاجرین کی مد میں صوبائی حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر آئی ڈی پیز کی مدد نہ کی گئی تو فاٹا کے نوجوان دہشتگردی کی طرف جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی مالی مدد کی جائے اور آئی ڈی پیز سے نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کیا جائے۔

عمران خان نے کہاکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ذمہ فاٹا اور صوبے کے درمیان بارڈر سیکیورٹی فراہم کرنا تھی۔ انہوں نے مطالبہ کہاکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو واپس لایا جائے کیونکہ پولیس سے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی توقع نہیں ہے۔ پولیس یہ اضافی بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو سرحدوں کی سیکیورٹی پر لگادیا گیا ہے جو اس کا کام نہیں، جس مقصد کے لئے ایف سی بنائی گئی تھی اسے اس کے لئے ہی استعمال کیا جائے، سرحدوں پر پولیس کا کوئی کام نہیں اور نہ ہی پولیس کی اس طرز کی ٹریننگ ہے کہ انہیں سرحدوں پر تعینات کیا جائے، پختونخوا پولیس کو انٹیلی جنس کی ضرورت ہے انٹیلی جنس کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے پولیس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے موثر انٹیلی جنس شیئرنگ اور کال ٹریس کرنے کا نظام دیا جائے۔

عمران خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ 5 لاکھ غیرقانونی افغان مہاجرین کو فوری طور پر واپس بھیجا جائے اور فوری طور پر غیر قانونی سمیں بند کرتے ہوئے فاٹا سے 5 ہزار افراد کو پولیس میں بھرتی کیا جائے۔ خیبر پختونخوا پولیس کو انٹیلی جنس شیئرنگ کی اشد ضرورت ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ پاک افغان بارڈر پر روزانہ 500 ویزے جاری کئے جاتے ہیں جبکہ پاک افغان بارڈر پر 15 سے 20 ہزار افراد سرحد پار کرتے ہیں۔

غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے فاٹا اور صوبے میں پھیل جاتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر پاکستان آنے والے کہاں جاتے ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔ طورخم سرحد پر آمدورفت کو کنٹرول کئے بغیر دہشتگردی کو روکنا مشکل ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے بارڈر کو کنٹرول کیا جائے۔ عمران خان نے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا میں 17 لاکھ افغان مہاجرین ہیں جس سے صوبے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

5 لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان موسم کی خرابی کے باعث بذریعہ روڈ پشاور پہنچے جہاں انہوں نے آرمی پبلک سکول کا دورہ کیا۔ تحریک انصاف کے قائد کے ساتھ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور صوبائی کابینہ کے بعض وزراء بھی تھے اس موقع پر سکول میں موجود خواتین اور دیگر شہری ان کے گرد جمع ہوگئے اور اپنا دکھ بیان کیا۔

پاک فوج کی جانب سے عمران خان کو سکول پر حملے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور عمارت کے مختلف حصوں کا معائنہ کرایا گیا۔ عمران خان کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے ، پی ٹی آئی کے چیئرمین بعدازاں سکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کے گھر گئے ، انہوں نے شہید پرنسپل کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔