حکومت اور پی ٹی آئی باضابطہ مذاکرات کا فیصلہ ہوچکا ،کامیابی کا انحصار حکومتی روئیے پر ہے،جوڈیشل کمیشن کے لئے ٹائم فریم ہونا چاہئے،شاہ محمود قریشی، باقی معاملات طے پاگئے ہیں، جوڈیشل کمیشن کا قیام اور اس کی ذمہ داری کا معاملہ زیرغور ہے، رانا ثناء اللہ اور ان سے جڑے لوگ جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تھے وہی فیصل آباد کے واقعہ میں ملوث ہیں،ملتان ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت

اتوار 14 دسمبر 2014 09:06

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14دسمبر۔2014ء) تحریک انصاف کے مرکزی وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین باضابطہ مذاکرات کا فیصلہ ہوچکا ہے تاہم مذاکرات کی کامیابی کا انحصار حکومتی روئیے پر ہے،جوڈیشل کمیشن کے لئے ٹائم فریم ہونا چاہئے،حکومت سے باقی تمام معاملات تو طے پاگئے ہیں لیکن جوڈیشل کمیشن کا قیام اور اس کی ذمہ داری کا معاملہ زیرغور ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ رانا ثناء اللہ اور ان سے جڑے لوگ جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تھے وہی فیصل آباد کے واقعہ میں ملوث ہیں۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کے روز اسلام آباد سے ملتان پہنچنے پر ملتان ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی طے ہوچکی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ حتمی ہوگا اور اگر جوڈیشل کمیشن میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر اسمبلی ختم کی جائے گی اور نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے سلسلے میں اسد عمر اور احسن اقبال کے درمیان ایک نشست ہوچکی ہے جبکہ امید ہے کہ کل ایک اور نشست ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جوڈیشل کمیشن پر متفق ہوگئے ہیں اور تحریک انصاف نے اب وزیراعظم کے استعفے مانگنے کیلئے مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے رعایت دے دی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بارے میں فائنڈنگ دے گا کہ دھاندلی ہوئی ہے کہ نہیں تاکہ آئندہ انتخابات شفاف کرائے جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ میری چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات ہوئی تھی جس میں پی ٹی آئی نے انہیں اپنا موقف دے دیا ہے اور ان سے پوچھا تھا کہ اضافی بیلٹ پیپر کیوں چھپوائے گئے جس کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ معمول کی کارروائی تھی حالانکہ 11 اگست کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھپوائے گئے اور پھر دو تین مرتبہ ترمیم کرکے بتایا گیا کہ ایک کروڑ 17 لاکھ اضافی بیلٹ پیپر چھپوائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا کہ مقناطیسی سیاہی پر جو کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اس کی ذمہ داری کس پر عائد تھی اس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ ہمارا ایک موقف یہ بھی تھا کہ آر اوز پر الیکشن کمیشن کا کنٹرول نہیں ہے تو پھر الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری کیسے پوری کرے گا اس کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔کہ تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سے تعاون کا اظہار کردیا ہے مگر ہمیں الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ممبران پر اعتماد نہیں ہے تو چیف الیکشن کمشنر سے ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو فعال بنانے کیلئے موجودہ چاروں صوبائی ممبران مستعفی ہوں۔

یہ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہوگئی ہے اور خورشید شاہ نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے اور جماعت اسلامی نے بھی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات میں یہی مطالبہ کیا ہے تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور موجود چاروں صوبائی ممبران کے ہوتے ہوئے انتخابات شفاف نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔

عمران خان نے قوم کو جگایا ہے اور ہمارے احتجاج میں لوگ شامل ہورہے ہیں۔ہمارے احتجاج کے نتیجے میں حکومت پٹرول ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہوئی اور سندھ‘ پنجاب اور کے پی کے میں کسانوں کو گنے کی قیمت میں اضافہ ملا ہے یہ بھی ہمارے احتجاج کا نتیجہ ہے۔ شاہ محمود قریشی سے جب سوال کیا گیا کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان مذاکرات سے قبل اپنی زبان بند کریں تو کیا عمران خان اپنی زبان بند کریں گے‘ اس کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان قوم کی ترجمانی اور لوگوں کے جذبات کی ترجمانی عکاسی کررہے ہیں۔

جو کردار اپوزیشن کا اسمبلی میں ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہے۔ ہمیں اپوزیشن کا اسمبلی میں گرینڈ مک مکا دکھائی دے رہا ہے۔ کل ایک شخص کو نیب سے بری کیا گیا‘ لگتا ہے کہ نیب کے مقدمات ختم ہونے تک اپوزیشن کا کردار پی ٹی آئی کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ہمیں پرامن رہنے دے۔ کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔

کوئی دکان‘ کوئی سکول‘ کوئی دفتر نہیں کھلا۔ پہیہ جام کیساتھ ساتھ ہماری کال پرامن تھی‘ کسی نے پتھر مارا نہ ڈنڈا اٹھایا۔ نہ دھونس دھاندلی بندوق کے ذریعے کراچی کو بند کروایا اس پر ہم کراچی کے شہریوں کے مشکور ہیں۔ کاش! یہی مظاہرہ فیصل آباد میں بھی ہوتا لیکن فیصل آباد میں سرکاری ایماء پر سرکاری جماعت کے کارکنوں نے ہمارے احتجاج کو پرتشدد بنایا اور پی ٹی آئی کی قیادت کیخلاف جس میں عمران خان‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر اور عارف علوی کیخلاف مقدمات درج کرائے حالانکہ فائرنگ سرکاری جماعت کے لوگوں نے کی اور ان لوگوں نے کی جو ان کے بلدیاتی امیدوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کا ہمارا احتجاج منصوبہ بندی کے تحت پرتشدد بنایا گیا، ہمیں اور ہماری پارٹی کو برگر پارٹی کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے شہریوں‘ وکلاء اور خواتین نے ہمارا ساتھ دیا۔ 8 دسمبر کو احتجاج ہوا اور ابھی تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ رانا ثناء اللہ اور ان سے جڑے لوگ جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تھے وہی فیصل آباد کے واقعہ میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر رانا ثناء اللہ ذمہ دار ہیں تو پھر ان کیخلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ رانا ثناء اللہ کے معاملے میں”اگر“کا لفظ کیوں استعمال کررہے ہیں‘ لچک کیوں دکھارہے ہیں اسے تو آپ نے نامزد ملزم قرار دیا ہے اس پر شاہ محمود قریشی نے خاموشی اختیار کرلی۔

انہوں نے کہا کہ 15 دسمبر کو لاہور میں ہمارا پرامن احتجاج ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کو لاہور سے دور رکھا جائے گا۔ یہ احتجاج پرامن ہوگا اور ہم پرامن رہیں گے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ہمیں پرامن احتجاج کرنے دیتی ہے یا خون کی ہولی کھیلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں 11 دسمبر کو لاہور کے تاجروں سے ملا تھا مجھے امید ہے کہ وہ 15 دسمبر کو ہمارے حق میں فیصلہ دیں گے۔

ہم لاہور میں زبردستی دکانیں بند نہیں کروائیں گے اور (آج) اتوار کو ملتان کے تاجروں سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ 16 دسمبر کو باضابطہ مذاکرات جہا ں سے ٹوٹے تھے وہیں سے شروع کریں گے اور پی ٹی آئی مذاکرات کو بامعنی بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ نیا پاکستان‘ نئی سوچ‘ نئے سیاسی کلچر کیساتھ اور نئے چہروں کیساتھ بنے گا۔ اب بھی کچھ لوگ پیپلزپارٹی اور ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاہم ذوالفقار کھوسہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی وہ اپنی سوچ کیساتھ ایک نیا اتحاد بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی ساری کارروائی کو وقت کا پابند کیا جائے۔