غداری کیس سنجیدہ معاملہ ہے‘ عدالت تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت کرے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ،غداری کیس خصوصی عدالت کا فیصلہ آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں ، عدالت نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو سنے بغیر کیس میں شریک ملزم ٹھہرایا، وکیل افتخار گیلانی،خصوصی عدالت کے فیصلوں کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کیلئے ایک لارجر بنچ تشکیل دیا جائے، وفا ق وکیل غداری کیس میں حکومت خود ایک فریق ہے۔ آپ کو عدالت عالیہ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ تمام فریقین کو فیئر ٹرائل کا موقع دیں گے،جسٹس اطہر من اللہ کے ریما رکس

ہفتہ 13 دسمبر 2014 08:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13دسمبر۔2014ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف سابق چیف جسٹس آف پاکستان عبدالحمید ڈوگر‘ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر زاہد حامد اور توفیق آصف ایڈووکیٹ کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے احکامات جاری کئے کہ غداری کیس ایک سنجیدہ معاملہ ہے‘ عدالت تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے درخواستوں کی سماعت کرے گی۔

عدالت عالیہ خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف درخواستیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی تمام فریقین کا موقف سننے کے بعد خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی جائے گی۔ عدالت نے وفاق کے وکیل کی جانب سے لارجر بنچ کی تشکیل کی تجویز پر احکامات جاری کئے۔

(جاری ہے)

یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے آپ کو عدالت پر یقین رکھنا چاہئے۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان عبدالحمید ڈوگر کے وکیل افتخار گیلانی‘ سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کے وکیل خواجہ حارث اور وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اثنان کریم کنڈی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل فیصل رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ خصوصی عدالت کے 21 نومبر کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

خصوصی عدالت نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو سنے بغیر اور انکوائری کے بغیر غداری کیس میں شریک ملزم ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 21 نومبر غداری کیس خصوصی عدالت کا فیصلہ آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے لہٰذا عدالت اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف کیس کی سماعت کرسکتی ہے جبکہ سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے مقدمے میں میرے موکل کو شریک ملزم ٹھہرایا ہے۔

سابق وفاقی وزیر کو عدالت نے سننے کا موقع ہی نہیں دیا اور بغیر انکوائری اور تحقیقات کے شریک ملزم ٹھہرادیا گیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو خصوصی عدالت کی تشکیل پر کوئی اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں لیکن خصوصی عدالت وفاق کو کوئی احکامات جاری نہیں کرسکتی۔ وفاق کے وکیل نے عدالت سے استدعاء کی کہ خصوصی عدالت کے فیصلوں کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کیلئے ایک لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔

اطہر من اللہ نے کہا کہ غداری کیس میں حکومت خود ایک فریق ہے۔ آپ کو عدالت عالیہ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ تمام فریقین کو فیئر ٹرائل کا موقع دے گی۔ عدالت نے مذکورہ احکامات کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم اور چوہدری فیصل کو آئندہ پیشی پر اپنے دلائل مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ عدالت نے خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف رجسٹرار آفس کی طرف سے لگائے گئے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے کیس کی سماعت 23 دسمبر تک ملتوی کردی۔

بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ خصوصی عدالت کے فیصلوں کیخلاف دائر ہونے والی درخواستوں کا فیصلہ 23 دسمبر کو کیا جائے گا کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ آرٹیکل 6 کا مقدمہ سابق صدر پرویز مشرف پر لاگو ہوتا ہے نہ کہ دیگر فریقین پر۔