سینیٹ کمیٹی کا اجلاس،نیب کی مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے معاملہ پر آئیں بائیں شائیں، کمیٹی کا معاملہ کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کے عزم کااظہار ، نیب کسی کو بھی کسی بھی وقت کسی بھی انکوائری کیلئے طلب کر سکتا ہے ، سیکرٹری خزانہ،سرکاری ملازم کیخلاف دوران ملازمت انکوائری شروع ہو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جرم ثابت ہونے پر پینشن اور دوسرے فوائد میں سے کٹوتی کی جا سکتی ہے،سیکرٹری قانون

جمعہ 12 دسمبر 2014 08:37

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12دسمبر۔2014ء)قومی احتساب بیورو(نیب) نے مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے معاملہ پر آئیں بائیں شائیں کی پالیسی اپنا لی تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے معاملہ کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کے عزم کااظہار کیا ہے اور سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ سینیٹر سعید غنی کے سوالات درست ہیں اور جو تفصیلات مانگی گئی ہیں فراہم کی جانی چاہئیں اور آگاہ کیا کہ نیب کسی کو بھی کسی بھی وقت کسی بھی انکوائری کیلئے طلب کر سکتا ہے ۔

چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی قواعد و ضوابط و استحقاق کرنل (ر)طاہر حسین مشہد ی کی صدار ت میں منعقد ہونے والے اجلا س میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے حوالے سے ایوان بالا میں پوچھے گئے سوال کا تین بار غلط جواب دینے پر تحریک استحقاق کے محرک سینیٹر سعید غنی کی تحریک استحقاق جس میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کی نیب نے جو تحقیقات کیں جواب نہ دینے پر سینیٹر سعید غنی نے کہاکہ تحریک استحقاق کا مقصد کسی کی بے عزتی یا نیچا دیکھنا مقصد نہ تھا بلکہ قوم کو اصل حقائق اور صورت حال سے آگاہ کرناتھا سینیٹر سعید غنی نے کمیٹی کے اجلاس میں سوال اُٹھایا کہ نیب نے کس قانون کے تحت مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کی تحقیقاتی رپورٹ اسٹیٹ بینک کو دی جس پر ڈائریکٹر جنرل نیب ظاہر شاہ نے انکشاف کیا کہ اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کے حکم پر تحقیقات رپورٹ اسٹیٹ بینک کو بھجوائی گئی تھی لیکن ہمارے پاس اب کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس پر تحریک کے محرک سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے ذمہ داران تحریری طور پر آگاہ کر چکے ہیں کہ اسٹیٹ بینک ایکٹ کے تحت نیب کی انکوائر ی پر کوئی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں ہے جس پر سعید غنی نے پھر سوال اُٹھایا کہ اگر قانون اجازت نہیں دیتا تو رپورٹ کیوں منگوائی گئی اور یہ کہ تحقیقاتی رپورٹ پچھلے دس سالوں سے اسٹیٹ بینک نے کیوں دبارکھی ہے؟ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ کیا نیب افسران کسی بھی طاقتور شخصیت یا وزیر کے حکم پر تحقیقات رپورٹ کسی کو بھی بھجوا سکتے ہیں اگر طریقہ کار یہ ہے تو پھر نیب کی آزادی اور طاقت کے بلند و بانگ دعوے کی کیا وقعت ہے؟ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ نیب سے بھی بااختیار اور طاقتور حلقے بچ سکتے ہیں صرف بے بسوں کی گردن ماری جارہی ہے۔

(جاری ہے)

ڈپٹی چیئرمین نیب سعید احمد سرگانہ نے کہا کہ اُ س وقت کے چیئرمین نیب اور دوسرے افسران کی ملازمت ختم ہو چکی ہے اجلا س کے فیصلہ کے علاوہ تحریری مواد بھی مو جود نہیں لیکن شارٹ منٹس میں اُس وقت کے وزیرخزانہ ، وزیر نجکاری ، چیئرمین نیب کے نام اجلاس کے لئے شامل ہیں ،نیب قانون کے تحت معاملہ ریگولیٹر کو بھجوایا جاتا ہے بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا ۔

ایوان بالا میں سینیٹر سعید غنی کی طرف سے معاملہ اُٹھانے کے بعد ریکارڈ دیکھا گیا اور اسٹیٹ بینک کو 21 دستاویزی فائلیں فراہم کی گئیں نجکاری کے عمل میں نیب قرض نادہندگان کے معاملے پر کاروائی نہیں کرتا قرض نادہندگان بینکوں کے خلاف کارروائی اسٹیٹ بینک خود کرتا ہے جس پر تحریک استحقاق کے محرک سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ غلط بیانی کے ذریعے حقائق چھپائے جا رہے ہیں نیب نے تحقیقات بھی مکمل کر لی اور معاملہ قرض نادہندگی کا ہے ہی نہیں اور کہا کہ اگر نیب نے عزت بحال کرنی ہے تو اسٹیٹ بینک سے انکوائری پر عمل کروائے نہ کہ وزیر کے کہنے پر معاملے کو دفن کر دیا جائے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ 21 دستاویزی فائیلوں میں کیا ریکارڈ موجود ہے اس پر اسٹیٹ بینک کے پاس جمع شدہ مواد پر کارروائی کی جانی چاہیے تھی دستاویزی فائلیں پولیس ، ایف آئی اے یا کسی تحقیقاتی ادرے کے حوالے کی جانی چاہیے تھیں دس سال سے اسٹیٹ بینک نے کیوں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کہا کہ آئین پاکستان بنانے والی پارلیمنٹ کی کمیٹیاں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں قومی مفاد میں معاملات کی درستگی کی خاطر سرکاری اداروں کے ذمہ داران کا طلب کیا جاتا ہے اس اہم او رحساس معاملے پر تین اجلاس منعقد ہو چکے لیکن معاملے کو سلجھایا نہیں جارہا ،کمیٹی کسی چیز کو پردے میں نہیں رہنے دے گی ہر حال میں سچ کو سامنے لایا جائے گا، دس سال سے مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کا معاملہ دبا ہوا ہے پتہ تو چلے کہ کس قانون کے تحت نیب اسٹیٹ بینک کے خلاف کارروائی کرے گا۔

سینیٹر جعفر اقبال نے اعتراض اُٹھایا کہ نیب میں کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت چھوڑنے کے بعد کیوں پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی اور تجویز دی کہ اگلے اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی طلب کیا جائے تاکہ اصل حقائق سے آگاہی ہو سکے جس کی اراکین کمیٹی نے متفقہ تائید کی جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ،نیب افسران دو سال موجیں کریں اور بعد میں جواب دہ بھی نہ ہوں کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت ختم ہونے کے بعد طلبی کے حوالے چیئرمین کمیٹی نے ڈی جی نیب سے سوال کیا تو ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ نیب آرڈنینس اس حوالے سے مکمل خامو ش ہے ،سیکرٹری قانون انصاف جسٹس (ر) ایم رضا خان نے آگاہ کیا کہ اگر سرکاری ملازم کے خلاف دوران ملازمت انکوائری شروع ہو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جرم ثابت ہونے پر پینشن اور دوسرے حاصل کردہ فائدہ کی رقوم میں سے کٹوتی کی جا سکتی ہے سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ سینیٹر سعید غنی کے سوالات درست ہیں اور جو تفصیلات مانگی گئی ہیں فراہم کی جانی چاہئیں اور آگاہ کیا کہ نیب کسی کو بھی کسی بھی وقت کسی بھی انکوائری کیلئے طلب کر سکتا ہے ۔

متعلقہ عنوان :