سپریم کورٹ نے ملک بھر سے وکلاء کے اغواء‘ تشدد اور لاپتہ ہونے کے مقدمات کو دیگر مقدمات سے الگ کردیا،حکومت پنجاب اور اسلام آباد پولیس سے 13 جنوری تک رپورٹ طلب، لاپتہ وکیل ظہیر گوندل کے پورے خاندان کا القاعدہ اور طالبان سے تعلق ہے ، بھائی تنویر گوندل میریٹ ہوٹل سمیت کئی خودکش دھماکوں میں ملوث ہے ، بھائی ظہیر گوندل بھی خاندان کے ہمراہ قبائلی علاقے میں موجود ہے، یہ زبردستی لاپتہ کیس نہیں ،وزارت داخلہ

جمعرات 11 دسمبر 2014 08:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11دسمبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر سے وکلاء کے اغواء‘ تشدد اور لاپتہ ہونے کے مقدمات کو دیگر مقدمات سے الگ کرتے ہوئے حکومت پنجاب اور اسلام آباد پولیس سے 13 جنوری 2015ء تک رپورٹ طلب کرلی جبکہ وزارت داخلہ اور حکومت پنجاب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ وکیل ظہیر گوندل کے پورے خاندان کا القاعدہ اور طالبان سے تعلق ہے اس کا بھائی تنویر گوندل میریٹ ہوٹل سمیت کئی اہم خودکش دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث ہے اور ان کا بھائی ظہیر گوندل بھی ان کے خاندان کے ہمراہ قبائلی علاقے میں موجود ہے اسلئے یہ زبردستی لاپتہ کئے جانے کا مقدمہ نہیں ہے۔

لاہور کے دو وکلاء اور وہاڑی سے ایک وکیل کے مقدمے میں رپورٹس جمع کروادی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ رپورٹس بدھ کے روز جمع کروائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملک بھر سے وکلاء کے اغواء‘ تشدد اور دیگر حوالوں سے مقدمات کی بھی سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے بتایا کہ بہت سے معاملات حل ہوچکے ہیں ایک مقدمے میں ایک وکیل کے اہل خانہ نے دھمکیاں دینے کی بات کی ہے کہ انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

راولپنڈی سے متعلقہ مقدمات ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ صرف ان افسران کو عدالت بھجوایا جائے کہ جن کی ضرورت ہے باقی لوگوں کو ان کی ڈیوٹی پر مامور رکھا جائے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزا نے عدالت کو بتایا کہ ظہیر احمد گوندل وکیل تھے یہ ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔ تنویر گوندل کا تعلق طالبان سے تھا اور یہ اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل اور پنجاب میں متعدد بم دھماکوں میں ملوث تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو بھائی تھا ظہیر گوندل بارے کیا کہتے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ خاندان کے لوگوں کے بیانات حاصل کئے ہیں‘ مقدمہ درج کیا گیا ہے یا نہیں۔ پولیس افسر نے بتایا کہ لاپتہ وکیل کے اہل خانہ کا تعلق القاعدہ اور طالبان سے ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے بھائی کیساتھ گئے ہیں اور قبائلی علاقے میں موجود ہیں یہ زبردستی اٹھائے جانے کا مقدمہ نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ کیا یہ متحرک وکیل تھے جو لاپتہ ہوئے ہیں۔ رزاق مرزا نے کہا کہ یہ پریکٹس نہیں کرتے تھے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ اپنے خاندان کیساتھ رہتے تھے کہاں غائب ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں بہت سے نام ہیں۔ بشارت اللہ خان اور مجیب الرحمن کو اغواء کیا گیا یہ سب کہاں گئے؟۔ ان لوگوں کے حوالے سے رپورٹ جمع کروائی جائے۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ اس حوالے سے رپورٹ جمع کروادی ہے اس پر نمبر نہیں لگایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان مقدمات کی الگ سے سماعت کی جائے گی۔ اس بارے اسلام آباد پولیس اور پنجاب اگلی سماعت پر رپورٹ جمع کروائیں۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ دونوں معاملات بارے پنجاب حکومت رپورٹ پیش کرے۔ صرف ضرورت کے مطابق ہی پولیس افسران عدالت میں پیش ہوں۔ لاہور کے دو اور وہاڑی کے ایک وکیل کا کیس ہے ان کی سماعت 13 جنوری 2015ء کو کی جائے گی۔