18ویں ترمیم کے بعد اقلیتوں کو شادی اور طلاق میں مشکلات کا سا منا ،شادیوں کو قانونا تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہندو برادری کی خواتین کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں نام کی تبدیلی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ رپو رٹ

منگل 9 دسمبر 2014 08:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9دسمبر۔2014ء)18ویں ترمیم کے بعد غیر مسلموں کو شادی اور علیحدگی دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے تحت مذہبی اور شادیوں کے معاملات صوبوں کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ابھی تک کسی بھی صوبے نے اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی اور اقلیتی برادری کو خدشہ ہے کہ کسی بھی قسم کی قانون سازی کی صورت میں ان کے صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی۔

حکمران جماعت مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر لعل کمار نے کہا کہ اصل تحفظات یہ ہیں کہ اگر چاروں صوبے الگ الگ قانون بناتے ہیں، تو ہماری برادری بری طرح متاثر ہو گی۔اس وقت اقلیتوں کو اپنی شادی کا ثبوت دینے کے لیے قانونی دستاویز نہیں، شادیوں کو قانوناً تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہندو برادری کی خواتین کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں نام کی تبدیلی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے ’مذہبی اقلیتیں اور پاکستان میں شادی کے قوانین‘ کے نام سے ایک رپورٹ بھی تیار کی گئی جس میں ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس رپورٹ کو طاہر مہدی نے تیار کیا ہے جسے کمیونٹی ورلڈ سروسز نے شائع کیا ہے۔ اس میں شادی اور طلاق کے حوالے سے ہندو، عیسائی، سکھ، احمدی، بہائی، پارسی برادری کو شادی اور طلاق میں درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی آپس میں شادیوں اور مذہب کی تبدیلی کے نتیجے میں سامنے آنے والے مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

طاہر مہدی نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے لیے قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ برادری کے اراکین اور اس کے مذہبی رہنماوٴں کے نظریات کا فرق کا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اگر دو افراد ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو پھر اس کے لیے کوئی قانونی راستہ ہونا چاہیے۔اس موقع پر انہوں نے ہندو اور عیسائی عقائد میں طلاق کے حوالے سے کسی قسم کے ضوابط نہ ہونے کی نشاندہی کی اور یہی وجہ ہے کہ ان برادریوں کے مذہبی حلقے طلاق کو قانونی قرار دینے کے حوالے سے کسی قانون سازی کے حق میں نہیں۔

لیکن ڈاکٹر لعل کمار کے مطابق انہوں نے ہندووٴں میں شادی اور طلاق کے حوالے سے قانون کا ڈرافٹ بل وفاقی کابینہ میں جمع کرادیا ہے۔لعل کمار نے بتایا کہ ہمارے یہاں طلاق کا تصور نہیں لیکن قانون میں علیحدگی کی اصطلاح موجود ہے۔دوسری جانب رپورٹ میں ملک میں کسی مرکزی قانونی ڈھانچے کی عدم جوودگی کے باعث مختلف برادریوں کو درپیش مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس وقت شادی کے ثبوت کے طور پر مخصوص تنظیموں، گرجا گھروں اور لائسنس یافتہ افراد عدالت یا یا نادرا میں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے پیش ہوتے ہیں۔رپورٹ میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 میں موجود خامیوں کا بھی احاطہ کیا گیا جس کے تحت کمسنی میں شادی جرم ہے لیکن اس شادی کو ختم تصور نہیں کیا جاتا۔رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ مسلمانوں کی طرح غیرمسلموں کے لیے مقامی سطح پر شادی کی رجسٹریشن کا نظام متعارف کرانا چاہیے۔