آپریشن ضرب عضب کے بعد فاٹا میں سلامتی کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے،رپورٹ،پنجاب میں جنگجو سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا،فاٹا میں فوجی آپریشن جبکہ پنجاب ‘ سندھ ‘ خیبر پختونخواہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر سرچ آپریشنز میں 314 مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا گیا،پاک انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیزکی ماہانہ رپورٹ ،پنجاب میں سیکورٹی فورسز کی 18 کارروائیوں میں ایک جنگجو ہلاک اور 108 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے

منگل 2 دسمبر 2014 05:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2دسمبر۔2014ء) نومبر 2014 ء میں ریاست مخالف جنگجوؤں کے حملوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی بیشی نہیں ہوئی تاہم ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ حملے فاٹا میں ہوئے ‘ خیبر پختونخواہ میں جنگجو کارروائیوں میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد یہاں سلامتی کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے‘پنجاب میں جنگجو سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ نومبر میں سیکورٹی فورسز کی جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں کامرکز فاٹا اور پنجاب رہا‘ فاٹا میں فوجی آپریشن جبکہ پنجاب ‘ سندھ ‘ خیبر پختونخواہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر سرچ آپریشنز میں 314 مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا گیا۔

یہ بات پیر کو پاک انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس)کی ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ ریاست مخالف تشدد پر نظر رکھنے والے آزاد تحقیقاتی ادارے کو پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز میں ضم کر دیا گیا ہے اور اب سیکورٹی رپورٹس پی آئی سی ایس ایس کی طرف سے جاری کی جاتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2014ء کے دوران ریاست مخالف تشدد اور سیکیوٹی فورسز کی جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں کے دوارن مجموعی طور پر 532 افراد ہلاک اور 451زخمی ہوئے ہیں جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں مشتبہ جنگجوؤں اور ان کے حامیوں کے خلاف آپریشن کے دوران مزید 314 افراد کو گرفتار کر لیا۔

مجموعی طور پر ریاست مخالف تشدد اور فورسز کی جوابی کارروائیوں کے 215 واقعات ریکار ڈ کیے گئے جن میں سے 111 جنگجوؤں اور 104 سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں تھیں۔ جنگجوؤں کی 111 کارروائیوں میں 285 افراد مارے گئے جن میں 112 عام شہری‘ 114 جنگجو‘ 44 سیکیورٹی فورسز اہلکار‘اور 15 امن لشکروں کے مسلح رضاکارشامل تھے۔ نومبر 2014 میں بھی اکتوبر کی طرح سب سے زیادہ جنگجو کارروائیاں فاٹا میں دیکھنے میں آئیں جہاں 39 حملوں میں 155 افراد ہلاک ہوئے ان میں سکیورٹی فورسز کے 25 ‘ امن لشکر کے 13 رضاکار‘ 10 عام شہری اور 107 جنگجو شامل ہیں۔

فاٹا میں جنگجو حملوں میں فورسز کے 18 اہلکار‘ امن لشکر کے 21 مسلح رضاکار‘ 33 جنگجو اور 17 عام شہری زخمی ہوئے۔نومبر 2014 ء میں فاٹا کی تمام سات ایجنسیوں میں جنگجو کارروائیاں نوٹ کی گئیں تاہم سب سے زیادہ کارروائیاں خیبر ایجنسی ریکارڈ کی گئیں جہاں شمالی وزیرستان سے نکالے گئے تحریک طالبان کے جنگجو محفوظ پناہ گاہیں بنانے کے لیے کو شاں ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر کے نام سے ملٹری آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں کئی مقام سے جنگجوؤں کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ یہ آپریشن ٹی ٹی پی اور لشکر اسلام سمیت ایجنسی میں سرگرم سب گروپوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ نومبر 2014 ء کے دوران اکتوبر کے مقابلے میں فاٹا میں جنگجو حملوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم جنگجو حملوں کی شدت اور ہلاکتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 ء میں فاٹا کے بعد سب سے زیادہ جنگجو حملے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دیکھنے میں آئے جہاں بالترتیب 26 اور 24 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ خیبر پختونخواہ میں 10 عام شہری ‘ 8 فورسز اہلکار‘ 5 جنگجو اور دو مسلح رضاکار مارے گئے۔ خیبر پختونخواہ میں اکتوبر کے مقابلے میں جنگجو حملوں میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔

اکتوبر میں یہاں 20 حملے ہوئے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر آپریشن ضرب عضب کے بعد سے خیبر پختونخواہ میں جنگجو حملوں میں کمی کا رجحا ن ہے اور سلامتی کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ فاٹا میں جنگجو ٹھکانوں کا سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخواہ کواٹھانا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے ریاست مخالف تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ عام شہری بنتے ہیں جہاں گزشتہ ماہ 24 حملوں میں 27 افراد مارے گئے جن میں سے 23 عام شہری تھے جبکہ تین فورسز اہلکار اور ایک جنگجو بھی ان کارروائیوں میں مارا گیا۔

پنجاب میں جنگجوؤں کی سرگرمیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سڈیز کی اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں کوئی جنگجو حملہ نہیں ہوا تھا جبکہ نومبر میں واہگہ سرحد پر ہونے والے خود کش حملے سمیت کل چھ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں 64 افراد ہلاک اور 109 زخمی ہوئے۔ زیادہ تر ہلاکتیں واہگہ حملے میں ہوئیں۔

سندھ میں نومبر 2014 ء میں 15 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 13 افراد ہلاک ہوئے اکتوبر میں یہاں 16حملے ہوئے تھے۔ نومبر 2014ء میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا زیادہ تر مرکز فاٹا اور خیبر پختونخواہ رہا تاہم ملک بھر میں جنگجوؤں کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مجموعی طور پر فورسز کی 104 کارروائیوں میں 247 افراد ہلاک اور 92زخمی ہوئے۔

ہلاک ہونے والوں میں اکثریت (240 ) جنگجوؤں کی تھی جبکہ فورسز کے اپنے پانچ اہلکار اور دو عام شہری بھی ان کارروائیوں میں مارے گئے۔ فاٹا میں 30 کارروائیوں میں 222 افراد مارے گئے جن میں 217 جنگجو‘ تین سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور دو عام شہری شامل تھے ‘ فاٹا سے 40 مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتا ر بھی کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں فورسز کی 24 کارروائیوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے چار جنگجو اور دو فورسز اہلکار تھے جبکہ 30 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

پنجاب میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی بڑی وجہ واہگہ میں خود کش حملہ تھا۔ مجموعی طور پر 18 کارروائیوں میں ایک جنگجو ہلاک اور 108 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے۔ گزشتہ ماہ سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی پنجاب ہی سے ہوئیں۔ سندھ میں بھی ریاست مخالف جنگجوؤں کے خلاف فورسز کی 18 کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں دس جنگجو ہلاک اور 44 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے۔

کراچی سے ٹی ٹی پی کے بعض اہم کمانڈر بھی گرفتار کیے گئے۔ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی 13 کارروائیوں میں 8 جنگجو ہلاک اور 91 مشتبہ جنگجو اور ان کے ساتھی گرفتار کیے گئے وفاقی دار الحکومت میں ایک کارروائی میں ایک مشتبہ جنگجو کو 24نومبر کو گرفتار کیا گیا جس کے قبضے سے خودکش جیکٹیں بنانے کا سامان برآمد ہوا۔ نومبر 2014 وفا دیسی ساختہ بموں کے 41 حملے ‘ 14 گرینیڈ حملے ‘ 28 ہجومی حملے ‘ اور ٹارگٹ کلنگ کی 24 وارداتیں‘ ایک خود کش حملہ ‘ دو راکٹ حملے ریکارڈ کیے گئے۔

2014 ء میں ریاست مخالف تشدد اور فورسز کی جنگجوؤں کے خلاف جوابی کاررائیوں کے مجموعی طور 2586 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 4531 افراد ہلاک اور 3641 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 62فیصد جنگجو‘ 23 فیصد عام شہری ‘ 13 فیصد سیکورٹی فورسز اہلکار اور اور دو فیصد حکومت نواز مسلح رضا کار شامل ہیں۔ جبکہ زخمی ہونے والوں میں 63 فیصد عام شہری ‘ 23 فیصد سیکورٹی فورسز اہلکار‘ 12 فیصد جنگجو اور دو فیصد حکومت نواز مسلح رضاکار شامل ہیں۔ سال 2014 ء کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ملک بھر سے 5613 مشتبہ جنگجوؤں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔جبکہ جنگجوؤں نے 154 افراد کو اغوا کیا۔