یہ کہنادرست نہیں کہ پاکستان کے تحفظات کی وجہ سے سارک کانفرنس میں ٹرانسپورٹ اور انرجی کے معاہدوں پر دستخط نہیں ہو سکے،پاکستان،بھارت کے الزامات مسترد،پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، بھارتی وزیر داخلہ کے الزامات بے بنیاد ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا فروغ چاہتا ہے،ترجمان دفتر خارجہ،امریکہ اور ایران نیوکلیئر معاملہ پرمتفق ہوجائیں گے تو پاک ایران گیس پائپ لائن پر عملدرآمد یقینی ہو جائے گا،صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ

جمعہ 28 نومبر 2014 09:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28نومبر۔2014ء)پاکستان نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے کہ کہ سارک کانفرنس کے موقع پر اس کے تحفظات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور انرجی سمیت دیگر معاہدوں پر دستخط نہیں ہو سکے جبکہ بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، اس حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ کے الزامات بے بنیاد ہیں، پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا فروغ چاہتا ہے،امریکہ اور ایران جلدہی نیوکلیئر معاملہ کے مثبت حل پرمتفق ہوجائیں گے جس کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن پر عملدرآمد یقینی ہو جائے گا۔

یہ بات دفترخارجہ کی خاتون ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کویہاں صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہی۔

(جاری ہے)

ترجمان نے کہا کہ سارک کانفرنس سے قبل تین معاہدوں پر دستخط کے لیے رابطے جاری تھے لیکن بدقسمتی سے ان معاہدوں کو کانفرنس شروع ہونے سے پہلے حتمی شکل نہیں دی سکی اور نہ ہی متعلقہ وزرا کے سامنے پیش کیے گئے اور اس بارے میں پاکستان نے میزبان ملک نیپال کے متعلقہ سیکرٹریٹ سے رابطہ بھی کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ سارک کانفرنس آج بھی جاری ہے، یقیناً وفود کے درمیاں مختلف ایشوز پر بات ہوگی تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کس معاہدے پر دستخط ہوگا اور کس پر نہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے اور برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات کا خواہاں اور حامی ہے اور خطے کی معاشی ترقی کے لیے امن چاہتا ہے تاکہ نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوسکے بلکہ اس کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی میں واضع تبدیلی آسکے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے اور برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات کا خواہاں اور حامی ہے اور خطے کی معاشی ترقی کے لیے امن چاہتا ہے تاکہ نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوسکے بلکہ اس کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی میں واضح تبدیلی آسکے۔ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے بدھ کو سارک کانفرنس میں واضح بیان دیاکہ ہمیں اسلحے کی دوڑ کی بجائے عام آدمی کی ترقی اور خوشحالی پرتوجہ دینی چاہئے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیاں ایٹمی معاملات پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور امکان ہے کہ دونوں ممالک جلدہی مسئلے کے مثبت حل پرمتفق ہوجائیں گے جس کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن پر عملدرآمد یقینی ہو جائے گا۔پاکستان کے قبائلی علاقے میں گذشتہ روز ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے بارے میں ایک سوال کے جواب پر ترجمان نے کہا کہ یہ کوئی نیا حملہ نہیں ہے جبکہ پاکستان نے پہلے ہی اس مسئلے کو مختلف بین الاقوامی اور متعلقہ فورمز پر اٹھایا جس کے باعث عالمی سطع پرنہ صرف آگہی پیدا ہوچکی ہے بلکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی کئی بار اسکی واضح مخالفت کی ہے۔

تسنیم اسلم نے اس بات کی بھی تردید کی کہ سارک کانفرنس میں پاکستان تنہا رہ گیا ہے اور کہا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے سارک میں شامل چھ ممالک کے سربراہوں سے ملاقات اورباہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، اسی وجہ سے وہ سارک کی مختلف ذیلی تنظیموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔

اس حوالے سے 18 ویں سربراہی کانفرنس کے میزبان ملک نیپال نے بھی پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے سارک اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں ہتھیاروں کی دوڑ کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس کے دوران انہوں نے تنظیم کے 6 رکن ممالک کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں تاکہ باہمی تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔

سارک ممالک کے درمیان ٹرانسپورٹ معاہدے کو پاکستان نے بلاک نہیں کیا، ماہرین کے اجلاس کے بعد اس معاہدے کا اندرونی طریقہ کار ابھی پورا نہیں ہوا ہے لیکن یہ طریقہ کار پاکستان کے علاوہ کچھ دیگرسارک ممالک بھی پورا نہیں کرسکے۔تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان پورے خطے کی ترقی کے لئے پڑوسی ممالک سے امن چاہتا ہے لیکن ہمسایوں سے اچھے تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور پاکستان اسی بنیاد پر ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، اس حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ کے الزامات بے بنیاد ہیں، بھارت کو اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ بے بنیاد الزامات کسی بھی مسئلے کے حل میں مثبت اثرات مرتب نہیں کرسکتے۔ الزامات کے بجائے دہشت گردی جیسے مسائل کا حل باہمی تعاون سے نکالا جاسکتا ہے۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کسی بھی ملک سے زیادہ جانی ومالی نقصان برداشت کیا ہے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ رابن رافیل جنوبی ایشیاء کے حالات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں ہمارا ان سے رابطہ رہا ہے لیکن ایسی کوئی اطلاعات نہیں کہ پاکستان کے لئے جاسوسی کی وجہ سے ان سے کوئی تفتیش ہو رہی ہے۔ترجمان نے وزیر دفاع کی طرف سے خطہ میں امریکی پالیسی کی ناکامی کے بارے میں بیان پر کسی قسم کے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزراء اور سیاسی شخصیات کے بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتیں،پاکستان کا امریکہ سے جامع اور تعمیری رابطہ ہے، بعض امور پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے،ان پر ہم باہمی ملاقاتوں میں بات چیت کرتے رہتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لئے فوجی سطح پر میکنزم موجود ہے تاہم اس کی کوئی تازہ بات چیت ہوئی ہے اس کے بارے میں آئی ایس پی آر ہی بتا سکتا ہے۔