دھرنو ں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل اور ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوا ،اسحاق ڈا ر ،حلفاً کہتا ہوں طاہر القادری کو دھرنا ختم کرنے کیلئے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ایک پائی تک نہیں دیا ‘ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بیان بازی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہوں مگر ہمارے سامنے معیشت سمیت ملک کی تعمیر و ترقی کے چیلنجز ہیں ان سے نمٹنا ضروری سمجھتے ہیں‘ او جی ڈی سی ایل کے شیئرز کی نجکاری موخر کرنے کے بعد اب متبادل کی تلاش میں ہیں‘ سکوک بانڈز کی نیلامی رواں ماہ ہو گی‘ ذر مبادلہ کے ذخائر31 دسمبر تک 15 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے ‘ آئی ایم ایف کے ساتھ چوتھے اور پانچویں جائزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل کئے‘دباوٴ میں نجکاری نہیں کرینگے ‘پہلے بھی کہہ چکا ہوں پاکستان کاچارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے‘عمران خان کا وزیر اعظم کے استعفیٰ سے پیچھے ہٹنا مثبت تبدیلی ہے، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 13 نومبر 2014 09:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13نومبر۔2014ء ) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈاراوجی ڈی سی ایل کی نجکاری میں ناکامی کا ملبہ دھرنوں ڈا ل دیتے ہوئے کہاہے دھرنو ں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا اور ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوا ،حلفاً کہتا ہوں کہ طاہر القادری کو دھرنا ختم کرنے کیلئے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ایک پائی تک نہیں دیا ‘ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بیان بازی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہوں مگر ہمارے سامنے معیشت سمیت ملک کی تعمیر و ترقی کے چیلنجز ہیں ان سے نمٹنا ضروری سمجھتے ہیں‘دھرنوں سے حکومت کو معاشی نقصان پہنچا ‘او جی ڈی سی ایل کے شیئرز کی نجکاری موخر کرنے کے بعد اب متبادل کی تلاش میں ہیں‘ سکوک بانڈز کی نیلامی رواں ماہ ہو گی‘ ذر مبادلہ کے ذخائر31 دسمبر تک 15 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے ‘ آئی ایم ایف کے ساتھ چوتھے اور پانچویں جائزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل کئے‘دباوٴ میں نجکاری نہیں کرینگے ‘پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کاچارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے‘عمران خان کا وزیر اعظم کے استعفیٰ سے پیچھے ہٹنا مثبت تبدیلی ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو وزارت خزانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ 8 نومبر کو دوبئی میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ چوتھا اور پانچواں جائزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل ہوئے‘ زر مبادلہ کے ذخائر مالیاتی اثاثے اور حکومت کی کارکردگی بارے سٹیٹمنٹ مثالی تھی جبکہ باقی اقتصادی اعشاریوں پر بھی آئی ایم ایف کی ٹیم نے اطمینان کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے حکومت کو بیرون ملک سے آنے والی او جی ڈی سی ایل کی فروخت سے60 کروڑ ڈالر اور سکوک بانڈز سے ایک ارب ڈالر اور آئی ایم ایف سے 56.9کروڑ ڈالر کی ٹرانزیکشن تاخیر کا شکار ہوئیں جس سے ترقی کرتی ہوئی معیشت مشکلات کا شکار ہوئی حالانکہ میڈیا کے ایک حصے نے آئی ایم ایف کے ساتھ چوتھے اور پانچویں جائزہ مذاکرات کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کئے لیکن قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے کسی قسم کی ڈیل پر تیار نہیں ہوئے۔

ہمیں دوسرے ممالک کی طرح چلنا ہو گا آپ دیکھنا معیشت کہیں کی کہیں پہنچ جائے گی۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ حالیہ دھرنے سیاسی بحران اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے او جی ڈی سی ایل کی 7.5 فیصد شیئرز کی نیلامی میں صرف 18.6 کروڑ ڈالر کی پیشکشیں ملیں جس کی وجہ سے نیلامی موخر کر دی۔ اب حکومت متبادل کی تلاش میں ہے کیونکہ ہمارا نظریہ ہے کہ دباوٴ میں نجکاری نہیں کرینگے جبکہ سکوک بانڈز کی نیلامی رواں ماہ ہو گی یا پھر جتنی جلدی ممکن ہو سکا کریں گے۔

وزیر خزانہ نے رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ کی معاشی کارکردگی بارے بتاتے ہوئے کہاکہ زر مبادلہ کے ذخائر30ستمبر تک 15 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن دھرنوں کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اب ہم دوہرے محنت کر رہے ہیں اور 31 دسمبر 2014ء تک زر مبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح4.1 فیصد رہی حالانکہ آئی ایم ایف نے 2.8 فیصد اندازہ لگایا تھا ‘ رواں مالی سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.1 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ آئی ایم ایف نے 4.3 فیصد کا اندازہ لگایا تھا۔

رواں مالی سال کے 4 ماہ میں 718 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں ہوئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 14.3 فیصد زائد ہیں جبکہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاب زر میں 15 فیصد اضافہ ہوا انہوں نے 4 ماہ میں 6.065 ارب ڈالر پاکستان بھجوائے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ جولائی تا اکتوبر کے دوران برآمدات کا حجم 5.96 ارب ڈالر رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اس عرصہ میں 6.2 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں یوں برآمدات میں5.25 فیصد کمی آئی ہے جس کے برعکس درآمدات میں11.6 فیصد اضافہ ہوا۔

گزشتہ مالی سال جولائی تا اکتوبر کے درمیان درآمدات کا حجم 10.589 ارب ڈالر تھا جبکہ رواں سال 11.828 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں تاہم مہنگائی کے اعشاریہ میں کافی بہتری آئی جولائی تا اکتوبر 2013ء کے دوران مہنگائی8.3 فیصد تھی جبکہ رواں سال یہ شرح 7.1 فیصد ہے خاص طو رپر اکتوبر میں مہنگائی میں واضح کمی ہوئی جو گر کر 5.8 فیصد ہو گئی ہے۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں جولائی اگست دو ماہ میں 3.2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جولائی تا اکتوبر2013ء میں4.3 فیصد اضافہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ 4 ماہ میں1058 نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں جو 14.2 فیصد گروتھ کو ظاہر کرتی ہیں۔ جب ہمیں حکومت ملی تو کراچی اسٹاک ایکسچینج19,916 پوائنٹس پر تھی جبکہ 30 جون کو30 ہزار پوائنٹس کی حد کراس کر گئی تھی لیکن کراچی اسٹاک ایکسچینج دھرنے کی وجہ سے گر کر 27 ہزار کی سطح پر آ گئی جو اب پھر بڑھ کر 31,200 پوائنٹس پر پہنچ گئی ہے جبکہ کیپلائریشن7.23 ٹریلین روپے کی سطح کو چھو رہی ہے اور روپے کی قدر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر 103 روپے پر جا کر 102 روپے کی سطح پر آ گیا ہے۔

زر مبادلہ کے ذخائر13.2727 کی سطح پر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز ڈونرز کانفرنس میں دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں نے سیلاب زدگان اورآئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے 70 کروڑ ڈالر کی امداد کے وعدے کئے ہیں جبکہ ابتدائی تخمینہ کے مطابق آئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے75 ارب روپے درکار ہوں گے اور حکومت اس وقت تک 26 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ اسی طرح سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے 45 ارب روپے درکار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بعض دوست ممالک نے کہاہے کہ وہ مشاورت کے بعد امداد کی یقین دہانی کرائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہاکہ بڑا دھرنا ختم ہو گیا اب ایک چھوٹا سا یومیہ بنیادوں پر جلسہ باقی رہ گیا ہے۔ عمران خان روز شام کو دھواں دھار تقریر کرتے ہیں حالانکہ نیچے 2 سے 3 سو بندے موجود ہوتے ہیں تاہم عمران خان کی جانب سے مثبت اشارے ملنا شروع ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے سے پیچھے ہٹنا ایک مثبت تبدیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سارا دن سگار پینے والوں کا یہ الزام غلط ہے کہ میں نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنانے کا کوئی وعدہ کیا تھا۔ مجھے بخوبی معلوم تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے عہدیدار جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں بن سکتے اور میں نے کبھی یہ بات نہیں کی۔

الزام لگانے والوں تھوڑی سی بھی شرم ہوتی تو ڈالر 98 روپے پر آنے کے وقت استعفیٰ دے دیتے میرے پاس ٹی وی پر بیٹھ کر الزام تراشی کرنے والوں کو جواب دینے کا وقت نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹراسحاق ڈار نے کہاکہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ زیر غور ہے تاہم ہماری حکومت گھریلو صارفین کے لئے ٹیرف میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں۔ علاوہ ازیں نیپرا کے چیئرمین کی تقرری کا عمل جاری ہے جلد ہی مستقل چیئرمین تعینات کر دیاجائیگا۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہاکہ دھرنے میں اور ٹی وی چینلز پر بار بار دھرایا جانے والا منی لانڈرنگ کے حوالے سے الزام جھوٹا اور لغو ہے حالانکہ نیب کی عدالت بیان حلفی کے معاملے کو سیاسی انتقام قرار دے چکی ہے۔ الزام لگانے والوں کو چاہوں تو منہ توڑ جواب دے سکتا ہوں لیکن ہمارے سامنے معیشت کو ترقی دینے سمیت بہت سارے چیلنجز ہیں ان سے نمٹنا ضروری سمجھتے ہیں۔

علامہ طاہر القادری کو دھرنے کا خرچہ دینے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں حلفاً کہتا ہوں کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے علامہ طاہر القادری کو ایک پیسہ نہیں دیا گیا۔ بجلی کی اوور بلنگ بارے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہاکہ آڈٹ کمپنیوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس میں 22 فیصد حصہ ماضی میں ہونے والے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا ہے جو بلوں پر وقتاً فوقتاً لاگو نہیں ہوا تھا اور 9 فیصد حصہ گزشتہ رمضان میں اوور سپلائی کا ہے جس پر اضافی بجلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کا40 کروڑ ڈالر اضافی خرچ ہوا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم ملک سے باہر ہیں جس کی وجہ سے اس معاملے میں ہفتہ 10 دن کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو 6 ناموں کی متفقہ فہرست بھجوائی جائے ‘ (آج) اٹارنی جنرل کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے سپریم کورٹ سے مزید مہلت طلب کریں گے کیونکہ اتنی اہم تقرری فوری طو رپر نہیں ہو سکتی۔