وفاقی کابینہ نے 10ارب کے ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈومنٹ فنڈ،ایک ارب کے ٹیکنالوجی و تنوع فنڈ کے قیام اور 10کروڑ کلسٹر ڈویلپمنٹ کیلئے مختص کرنے کی منظوری دیدی،قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونیوالا پیسہ اب ترقیاتی شعبوں پر لگے گا اس کیلئے ٹیکس نیٹ بڑھانا ضروری ہے،حکومت کو صرف سیاسی فیصلے نہیں کرنے بلکہ طویل المدتی اور دیرپا ثمرات رکھنے والے فیصلے کرنا ہیں،نوازشریف، حکومت خود اپنی کارکردگی اور عوام کو دیئے گئے ریلیف کی صورتحال سے مطمئن نہیں ، ملک میں کافی حد تک اندازے پر بلنگ کی جارہی ہے کچھ اوور بلنگ ہوئی ہے تاہم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان مصدق ملک کا اعتراف، وزیراعظم کے دورہ چین میں 35سے 40ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط ہونگے،ان میں 14منصوبے 10400میگاواٹ بجلی اوردیگرمنصوبے شامل ہیں، وفاقی کابینہ کے اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان مصدق ملک کی بریفنگ

جمعہ 7 نومبر 2014 08:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7نومبر۔2014ء)وفاقی کابینہ نے 10ارب کا ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈومنٹ فنڈ،ایک ارب کا ٹیکنالوجی و تنوع فنڈ کے قیام اور 10کروڑ روپے کلسٹر ڈویلپمنٹ کیلئے مختص کرنے کی منظوری دیدی ہے اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونیوالا پیسہ اب ترقیاتی شعبوں پر لگے گا اس کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ضروری ہے،حکومت کو صرف سیاسی فیصلے نہیں کرنے بلکہ طویل المدتی اور دیرپا ثمرات رکھنے والے فیصلے کرنا اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان مصدق ملک نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت خود اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور خوداحتسابی کا عمل شروع کیا گیا ہے، ملک میں کافی حد تک اندازے پر بلنگ کی جارہی ہے کچھ اوور بلنگ ہوئی ہے تاہم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں اور کہا ہے کہ وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران 35سے 40ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے جائیں گے،ان میں سے 14منصوبے 10400میگاواٹ بجلی جبکہ بلوچستان ،خضدار سے گوادر تک سڑک کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز وزیراعظم ہاؤس میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان وزیراعظم ہاؤس ڈاکٹر مصدق ملک نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں ترقی و منصوبہ بندی اورریلوے کی وزارتوں کی طرف سے ڈیڑھ برس کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی پریزنٹیشن دی۔وزیرمنصوبہ بندی و ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے بتایا کہ وزارت میں کافی تعلیم یافتہ افرادکی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ایڈوائزری بورڈ قائم کئے گئے ہیں تاکہ مستقبل کی بہتر انداز میں منصوبہ بندی کی جاسکے،جس پر وزیراعظم نے اطمینان کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایسے کئی منصوبے جو کہ سالہا سال سے چل رہے ہیں تاہم انسانی وسائل میسرنہ ہونے کی وجہ سے نامکمل رہ جاتے ہیں ان کو مکمل کیا جائے اور جو نئے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر شروع کئے گئے ان کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے،پرانے اور ادھورے منصوبوں پر نئی رقوم مختص کرکے ان کو بھی مکمل کیا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونیوالا پیسہ اب ترقیاتی شعبوں پر لگے گا اس کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ضروری ہے،پہلے بھی کوشش کی گئی تاہم اب ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار مزید وسیع کریں گے،جب تک ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر نہیں بڑھیں گے ملک کو مسائل کا سامنا رہے گا،اس کیلئے برآمدات اور سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا۔

وزیراعظم نے تعلیم ،ہیومن ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں بامعنی تحقیق کو بڑھانے پر زور دیا۔ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 10ارب روپے کے ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈومنٹ فنڈ جبکہ 1ارب روپے کے ٹیکنالوجی و اینوویشن فنڈ کے قیام کی بھی منظوری دی گئی،ان دونوں منصوبوں میں ہیومن ڈویلپمنٹ اور سائنسی تحقیق و ٹیکنالوجی میں اختراع کو بہتر بنایا جائے گا۔

وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں کلسٹر ڈویلپمنٹ کیلئے 10کروڑ روپے بھی مختص کئے،جس میں مقامی علاقوں کی مخصوص صنعتوں کے اعتبار سے وہاں سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے گا اور ان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ترجمان وزیراعظم ہاؤس کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں وزارت ریلوے نے بھی اپنی کارکردگی کے حوالے سے پریزنٹیشن دی جس میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ ریلویز کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اور پرانے انجن اور بوگیاں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے۔

وزیراعظم نے تیل کی قیمتوں میں کمی سے قبل ریلوے کرائے کم کئے جانے کو سراہا اور روڈ یا کہ نیشنل ٹرانسپورٹیشن حکمت عملی بنائی جائے جس میں ریلوے کے کردار کو مزید بہتر کیا جائے۔ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ خود احتسابی کے عمل کا ایک مرکز عوام ہیں،آئندہ تمام وزارتیں ایک روایت کے طور پر پی ایم کے سامنے احتساب کے عمل سے گزریں گی۔انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں سب سے پہلے بجلی کے اضافی بلوں یا اوور بلنگ پر بات ہوئی،جس میں گزشتہ اجلاس کے دوران بنائی جانے والی آڈٹ کمیٹیوں کی کارکردگی پر غور کیا گیا،ان آڈٹ کمپنیوں نے دو ہفتے کی مہلت طلب کی جس کے بعد وہ آئندہ ہفتے تفصیلی آڈٹ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کریں گی۔

ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں تاہم اس کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے،لوگوں کو دئیے جانے والے ریلیف سے مطمئن نہیں اور مزید ریلیف دینا چاہتے ہیں،رواں برس لوڈشیڈنگ کے اوقات کار میں ایک گھنٹے کا ریلیف دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کافی حد تک اندازے پر بلنگ کی جارہی ہے کچھ اوور بلنگ ہوئی ہے تاہم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں،وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران 35سے 40ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے جائیں گے،ان میں سے 14منصوبے 10400میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے ہیں جبکہ بلوچستان ،گوادر شہر اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر بھی دستخط ہوں گے،خضدار سے گوادر تک سڑک کی تعمیر کے منصوبے پر بھی دستخط کئے جائیں گے،جس سے چین سے وسطی ایشیاء تک رسائی بڑھے گی،چین کا دورہ سیاسی صورتحال اور ملتوی کئے جانے والے منصوبوں کودوبارہ جاری کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت بجائے چینی حکام کے دورے کا انتظار کرنے کے وزیراعظم خود جاکر معاہدوں پر دستخط کریں گے،چین کے بعد واپس آکر وزیراعظم جرمنی اور برطانیہ کا دورہ کریں گے،جس دوران وہاں انویسٹر کانفرنس میں ملک کی نمائندگی کریں گے،گزشتہ دنوں میں سرمایہ کاروں کا اعتماد ڈگمگایا ہے جس کو بہتر بنانے کیلئے یہ دورے کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 70فیصد لوگوں پربجلی کے بلوں کے حوالے سے ایک پیسے کا اضافی بوجھ نہیں ڈالا گیا،پاکستان کے 68فیصد عوام 200یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں،گزشتہ 20سال میں کچھ غلط فیصلے کئے گئے ،ایران اور قطر کی طرح ہم نے گیس کا کھلا استعمال کیا ،گھر گھر گیس پہنچائی،کھاد بنانے والے کارخانوں کو گیس دی،حتی کہ گاڑیوں میں بھی گیس کا استعمال بڑھایا تاہم اب ان فیصلوں کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔

وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں غریب آدمی کو حکومتی پالیسی کے ثمرات کی فراہمی بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ وزارتوں کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں،تاہم ایک عام آدمی پر ان کے دیرپا اور طویل المدتی اثرات میں زیادہ دلچسپی ہے،حکومت نے صرف وزراء کا نہیں بلکہ اپنا احتساب شروع کردیا ہے،ہماری وزارتوں کے کام کا عوام کے ذہن پر ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ اجلاس میں خوداحتسابی کا عمل شروع کیا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کو صرف سیاسی فیصلے نہیں کرنے بلکہ طویل المدتی اور دیرپا ثمرات رکھنے والے فیصلے کرنا اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے ۔