سپریم کورٹ ، 2013ء کے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواستیں مسترد ، یہ کیسے ثابت ہوگا کہ انتخابات سے قبل کئے گئے انتظامات بدنیتی پر مبنی تھے‘ انتخابی عذرداری میں صرف مخالف فریق ہی درخواست دائر کرسکتا ہے‘ آرٹیکل 225 کے تحت اس طرح کے معاملات کی سماعت کرنے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کو ہے، درخواستوں میں ارکان پارلیمان کو فریق نہیں بنایا گیا اگر فیصلہ دیا تو ارکان پارلیمنٹ متاثر ہوں گے،چیف جسٹس ناصرالملک کے ریمارکس،بتایا جائے دھاندلی بارے حقائق کس فورم نے تسلیم کئے ہیں،جسٹس امیر ہانی مسلم

جمعرات 30 اکتوبر 2014 06:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے 2013ء کے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواستیں مسترد کردیں‘ سپریم کورٹ میں تین درخواستیں دائرکی گئی تھیں جنہیں عدالت نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ دستخطوں کیساتھ کوئی ریکارڈ منسلک نہیں صرف الزامات کو ریکارڈ نہیں سمجھ سکتے‘ مقدمے میں معاملہ عدالت کے اختیار سماعت کا بھی ہے‘ درخواستوں میں ارکان پارلیمان کو فریق نہیں بنایا گیا اگر فیصلہ دیا تو ارکان پارلیمنٹ متاثر ہوں گے‘ یہ کیسے ثابت ہوگا کہ انتخابات سے قبل کئے گئے انتظامات بدنیتی پر مبنی تھے‘ انتخابی عذرداری میں صرف مخالف فریق ہی درخواست دائر کرسکتا ہے‘ آرٹیکل 225 کے تحت اس طرح کے معاملات کی سماعت کرنے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کو ہے جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ تحقیق طلب معاملات میں عدالت اپنا اختیار کیسے استعمال کرسکتی ہے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جتنی باتیں بھی کی جارہی ہیں یہ صرف باتوں کی حد تک ہیں‘ بتایا جائے کہ دھاندلی بارے حقائق کس فورم نے تسلیم کئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز درخواست گزاروں محمود اختر صدیقی‘ اللہ نواز ایڈووکیٹ اور دیگر کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دئیے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل میاں اللہ نواز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات 2013ء میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔

تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا اعتراف کیا۔ سیاہی انمٹ ہونی چاہئے تھی مقناطیسی نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ناقص سیاہی خریدی۔ 2013ء کے انتخابات میں شفافیت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ تمام تسلیم شدہ حقائق ہیں

اس پر جسٹس اعجاز چوہدری نے ان سے پوچھا کہ یہ حقائق آخر کس نے تسلیم کئے ہیں اس پر وکیل کا جواب تھا کہ یہ حقائق سب نے تسلیم کئے ہیں۔

معاملہ ایک حلقے کا نہیں ہے ملک کے تمام حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ دھاندلی انتخابات سے قبل ہی شروع ہوگئی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ انتخابات سے قبل کئے گئے انتظامات بدنیتی پر مبنی تھے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے سیاہی سے رپورٹ تیار کی۔ سیاہی اور کاغذ قانون کے مطابق استعمال نہیں ہوئے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی عذرداری پر صرف مخالف فریق ہی درخواست دائر کرسکتا ہے اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ایک عام شہری کی حیثیت سے وہ بھی دھاندلی کیخلاف درخواست دے سکتے ہیں اس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ ہمیں آرٹیکل 225 کے تحت اپنا اختیار سماعت بھی دیکھنا ہوگا۔

اگر ہم نے انتخابات کالعدم قرار دے دئیے تو اس سے تمام ارکان پارلیمان ڈی سیٹ ہوں گے اس پر وکیل نے کہا کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی کا کیس ہائیکورٹ نہیں سن سکتی اس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ ماضی میں اسمبلیوں کی تحلیل کے مقدمات کی سماعت بھی سپریم کورٹ نے کی۔ دھاندلی کے حوالے سے نتائج بھی تسلیم شدہ ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستوں کیساتھ کوئی ریکارڈ تو منسلک ہی نہیں ہے صرف الزامات کی بنیاد پر اتنے بڑے انتخابات کو کیسے کالعدم قرار دے دیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جتنے وقت میں اتنے زیادہ ووٹ ڈالے گئے وہ دھاندلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار سے درخواست کے قابل سماعت ہونے بارے کئی سوالات کئے جن کا درخواست گزار تسلی بخش جواب نہ دے سکا جس پر عدالت نے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیں۔