ضرب عضب آپریشن آخری مراحل میں داخل،پاک افغان سرحد کے قریب دتہ خیال اورشوال میں کارروائیاں جاری،90 فیصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ،چار ماہ کے عرصے میں 2 ہزار دہشت گرد مارے گئے، جنگ میں فوج کے 80 جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا، پاک فوج نے میرعلی، میرانشاہ کے علاقوں سے جنگجووٴں کا صفایا کردیا ، آپریشن ضرب عضب بارے خصوصی رپورٹ

اتوار 26 اکتوبر 2014 09:51

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26اکتوبر۔2014ء ) شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب می کامیابی کے ساتھ آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے، سیکورٹی فورسز کی بھرپور کارروائیوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آپریشن ضرب عضب بارے ایک میڈیارپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میران شاہ ملک میں دہشت گردوں کی آخری بڑی پناہ گاہ تھی، جہاں دہشت گرد منظم ہوتے اور ملکی اور غیر ملکی گروہ دہشت پھیلانے کے گھناونے منصوبے یہیں بناتے، جب ان سے بات چیت کے دورازے ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے اور زخم ناسور بننے لگا تو اس کا حل صرف اور صرف آپریشن تھا۔

دہشت گردی جاری رکھنے اور بات چیت کو مذاق بنانے کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ 15 جون کی شب پاک فوج کی انفنٹری اور اسپیشل سروسز نے دہشت کے اس عفریت کو شہ رگ سے دبوچ لیا۔

(جاری ہے)

مسلسل دو ہفتوں تک کامیاب فضائی حملوں کے بعد زمینی جنگ کی راہ ہموار ہو چکی تھی، علاقے سے5 لاکھ افراد کو بحفاظت خیموں میں منتقل کرنے کے بعد اب بری فوج کی باری تھی۔

یوں آپریشن ضرب عضب پاکستان کی جنگ کے طور پر سامنے آیا جس کے پیچھے پورا پاکستان کھڑا تھا۔چار ماہ کے عرصے میں لگ بھگ دو ہزار دہشت گرد مارے گئے, لیکن پاکستان کی اس جنگ میں فوج کے 80 جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ آپریشن نے طالبان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یوں ملکی اور غیر ملکی سطح پر خوف کی علامت بننے والے یہ دہشت گرد پانچ دھڑوں میں تقسیم ہوکر پسپائی پر مجبور ہوگئے۔

سال بھر پہلے حکیم اللہ محسود شمالی وزیرستان میں ہلاک ہوا۔ اس کے فورا ً بعد تحریک طالبان میں دراڑیں گہری ہونے لگیں۔۔ اقتدار کے لیے دو محسود گروہوں کے درمیان پنجہ آزمائی ہوئی، لیکن سربراہ سوات کا ملا فضل اللہ بن گیا، مگر یہ سربراہی محض نام کی تھی۔ فضل اللہ افغانستان میں چھپ کر پاکستان کے لیے حکم جاری کرتا لیکن طالبان شوری اسے ہوا میں اڑا دیتی۔

ادھر پنجابی طالبان نے بھی پاکستان میں حملے نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد اورکزائی ایجنسی کے شاہد اللہ شاہد نے بھی اپنا راستہ جدا کر لیا، جب 2007 سے طالبان کی ترجمانی کرنے والا بھی چلا گیا تو تحریک طالبان میں مزید ٹوٹ پھوٹ کا امکان اور بھی بڑھ گیا۔ضرب عضب نے تحریک طالبان اور القاعدہ کے درمیانی مواصلاتی رابطے ابتدا میں ہی توڑ دیے تھے۔

ساتھ ہی پاک فوج کی کارروائیوں نے ان کے انتظامی ڈھانچے کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا، ایسے میں دہشت گرد بیرونی قوتوں سے ملنے والی کمک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔آپریشن کی کامیابی سے ریاست کولاحق خطرات کم ہوتے چلے گئے، تحریک طالبان کے ساتھ ساتھ ازبک دہشت گرد بھی آپریشن کا بڑا ہدف بنے۔ ضرب عضب کے آغاز سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے ازبک دہشت گردوں نے کراچی کے ہوائی اڈے کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔

ایسے میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن وقت کی اہم ضرورت ثابت ہوا۔شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران کہیں باردوری سرنگیں پکڑی گئیں تو کہیں دھماکا خیز مواد کے کارخانے۔ نیول ڈاک یارڈ پر ممکنہ حملہ ناکام بنادیا گیا جب کہ زیارت ریزیڈینسی اور کوئٹہ ایئربس پر حملہ کرنے والے آپریشن کے دوران ہی گرفتار کر لیے گئے۔ یہیں سے علم و امن کی پیامبر ملالہ یوسف زئی کو گولی کا نشانہ بنانے والا دس رکنی طالبان گروہ بھی فوج کے ہاتھوں پکڑا گیا، رپورٹ کے مطابق ضرب عضب آخری مراحل میں داخل ہے جہاں دتہ خیال اور شوال میں کارروائیاں جاری ہیں، نوے فیصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد آپریشن ضرب عضب اب آخری مرحلے میں ہے۔

پاک فوج نے میرعلی، میران شاہ کے علاقوں سے جنگجووٴں کا صفایا کردیا ہے، جس کے بعد اب توجہ پاک افغان سرحد کے قریب دتہ خیل اور شوال کے علاقوں پر ہے۔ ان مشکل علاقوں تک رسائی آپریشن کے لیے اہم چیلنج ہے جس میں وہ پہلے کی طرح بھرپور کامیابی کا عزم رکھتے ہیں۔اپنے گھروں سے میلوں دور پناہ گزیں قوم کی خاطر قربانیاں دے کر بنوں کے خیموں میں موجود ہیں، ان کے حوصلے بلند رکھنے اور ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے میں پوری قوم ہم آواز ہے۔ مشکلات کے باوجود پناہ گزین پرْامید ہیں کہ وہ جلد اپنے علاقوں میں جا کر ایک ایسی فضا میں سانس لے سکیں گے، جو دہشت اور انتہا پسندی کی بو سے پاک ہوگی۔

متعلقہ عنوان :