قومی اسمبلی میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کیخلاف شدید احتجاج، حملوں کی مذمت، اپوزیشن کا حکومت سے جراتمندانہ موقف اختیار کرنے کا مطالبہ ،حکومت کی جراتمندی کے باعث بھارتی قیادت چیخ رہی ہے‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، حکومت، کشمیر پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا‘ افسوس کہ حکومتی موقف جراتمندانہ نہیں‘ ہم ایٹمی قوت ہیں‘ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ پیلز پارٹی، آلو‘ ٹماٹر اور پیاز کی تجارت سے مسائل حل نہیں ہوں گے‘ بھارت لائن آف کنٹرول کیساتھ ساتھ آبی جارحیت کا بھی مرتکب ہورہا ہے‘ حکومت سدباب کیلئے اقدامات اٹھائے۔ جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کے ارکان کا قومی اسمبلی میں بحث پر اظہار خیال، ارکان اسمبلی کو 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارت کیخلاف یوم سیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنی چاہئے، لائن آف کنٹرول پر جاکر کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہئے،ماروی میمن،قومی اسمبلی کا اجلاس آج دن گیارہ بجے دوبارہ شروع ہوگا

جمعرات 23 اکتوبر 2014 07:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اکتوبر۔2014ء) قومی اسمبلی میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کیخلاف شدید احتجاج‘ حملوں کی مذمت‘ اپوزیشن نے حکومت سے جراتمندانہ موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کردیا‘ حکومت نے کہا ہے کہ حکومت کی جراتمندی کے باعث بھارتی قیادت چیخ رہی ہے‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے جبکہ پیپلزپارٹی نے کہا ہے کہ کشمیر پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا‘ افسوس کہ حکومتی موقف جراتمندانہ نہیں‘ ہم ایٹمی قوت ہیں‘ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ جماعت اسلامی نے موقف اختیار کیا کہ آلو‘ ٹماٹر اور پیاز کی تجارت سے مسائل حل نہیں ہوں گے‘ بھارت لائن آف کنٹرول کیساتھ ساتھ آبی جارحیت کا بھی مرتکب ہورہا ہے‘ حکومت سدباب کیلئے اقدامات اٹھائے۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی میں کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی اندھا دھند اور بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں پاکستانیوں کی شہادتوں اور املاک کو نقصان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث شروع کی گئی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سرور اویس خان لغاری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے باوجود خارجہ امور کمیٹی میں بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے کیلئے شرکت نہیں کی۔

بھارت کیساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہشمند ہیں لیکن اپنے تنازعات کو فراموش نہیں کرسکتے۔ حکومت کی قیام امن کی خواہش کو بعض قوتوں نے سول عسکری تعلقات خراب کرنے کیلئے استعمال کیا۔ دوسری جانب بھارت کے مذاکراتی عمل کو ختم کیا۔ بھارت کی حکومت بعض ریاستوں میں اپنی سیاسی جماعت کو انتخابات جتوانے کیلئے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال گولہ باری کررہی ہے۔

بھارت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو بھی مقبوضہ کشمیر میں نہیں جانے دے رہا ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں لیکن بھارت ہماری اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھے ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ بھارتی جارحیت کا مقابلہ جوابی جارحیت سے دیا جائے گا۔ بھیگی بلی نہیں بنیں گے۔ پی پی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ بھارتی جارحیت کا جواب امن کی باتوں سے نہیں دیا جانا چاہئے ہماری افواج جوانمردی سے بھارتی گولہ باری کا جواب دے رہی ہیں لیکن حکومت کے بیانات کمزور ہیں۔

بی جے پی کی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ ہماری حکومت اس موقع پر کیوں خاموش ہے۔ ہم کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کے مطابق عملدرآمد کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے۔ بھٹو نے کشمیر پر سمجھوتہ نہ کرنے کی بات کی۔ گو نواز گو کا نعرہ بلاسبب نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔ حکومت فیصلہ سازی کی قوت نہیں رکھتی۔

جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت قابل مذمت ہے۔ حکومت کو اپنی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے اور سیلاب کے دوران پانی چھوڑتا ہے لیکن پاکستان آج تک اس کا سدباب نہیں کرسکا۔ آلو پیاز اور ٹماٹر کی تجارت سے ہمارے درمیان مسائل حل نہیں ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔

ماروی میمن نے کہا کہ ہم شہداء کے لواحقین کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ پاک فوج منہ توڑ جواب دینی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ حکومت کا بھارتی جارحیت کیخلاف جواب کمزور نہیں بلکہ جراتمندانہ حکومتی موقف کی وجہ سے ہے۔ بھارتی قیادت چیخ رہی ہے اگر پاکستان بھی بھارت کی طرح سخت بیانات جاری کرے تو کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کو 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارت کیخلاف یوم سیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنی چاہئے اور لائن آف کنٹرول پر جاکر کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہئے۔ ۔ ایم کیو ایم کی ڈاکٹر فوزیہ حمید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ جنگ یا جارحیت مسائل کا حل نہیں دونوں ممالک جنگ کرکے اپنی معیشت کو تباہ کرنے کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ دونوں ملکوں کی معیشت ترقی کے مراحل میں ہے۔

دونوں ملکوں کو مثبت اقدامات اٹھانا ہوں گے صرف باتوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ سابق بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گئے اور آج بھارتی وزیراعظم اقوام متحدہ میں نواز شریف کی جانب سے مسئلہ کشمیر اٹھانے پر سیخ پاء ہیں۔ بھارت ایک جانب سکیورٹی کونسل کا ممبر بننا چاہتا ہے اور دوسری جانب سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی مخالفت کررہا ہے اسلئے بھارت کا کوئی حق نہیں کہ وہ سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بنے۔

بھارت ہمیں ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اسی لئے ہم پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بھارت پاک افواج کی دہشت گردوں کیخلاف جنگ کو بھی کامیاب ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ دونوں ملک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اگر کشیدگی بڑھی تو پوری دنیا ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ دنیا میں قیام امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ حکومت کو مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں عالمی سطح پر اٹھانا چاہئے۔

پی پی کی شازیہ مری نے کہا کہ بھارتی افواج کی جانب سے گولہ باری قابل مذمت ہے۔ ہم پڑوسی کو بدل نہیں سکتے لیکن امن کیساتھ رہنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ قیام امن اور سی بی ایمز کی ساری ذمہ داری پاکستان کی نہیں بنتی بھارت کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا جانا چاہئے۔ ہم کمزور حکومتی جواب سے خوش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو کوئی ہونہار شخص پارلیمنٹ سے نہیں مل رہا جو غیر منتخب شخص خارجہ امور چلا رہا ہے۔

بھار ت ہمیں للکارنے کی کوشش نہ کرے ہم گھبرانے والے نہیں ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔ حکومت وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن ارکان کو بھی شامل کرے۔ بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں نکالے‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی یہ مطالبہ شامل ہے۔ بھارت نے فوجی نکالنے کی بجائے کشمیریوں کا قتل عام کیا۔ اگر کشمیری بھارت کیساتھ رہنا چاہتے ہیں تو بھارت رائے شماری کرانے سے گریز کیوں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت جراتمندانہ موقف اختیار کرے۔ اس موقع پر بحث جاری تھی کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس (آج) جمعرات کو صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔