وزیراعظم نواز شریف نااہلی کیس،سپریم کورٹ نے ئینی اور قانونی سوالات پر اٹارنی جنرل آف پاکستان سے معاونت طلب کرلی، وزیراعظم کا جرم کونسی عدالت ثابت کرے گی‘ صادق اور امین کی تعریف آئین میں موجود نہیں اس کا تعین کس سے ہوگا‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 62-63 کی موجودہ حالت کیا ہے، عدا لت،خود کو ناگزیر سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں،کوئی فوجی ہو یا عام شخص جرم ثابت ہونے کی سزا عدالت نے ہی دینی ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریما رکس

جمعہ 17 اکتوبر 2014 08:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اکتوبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف نااہلی کیس میں گوہر نواز سندھو درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے اہم آئینی اور قانونی سوالات اٹھائے جانے کے حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے معاونت طلب کرلی اور ان سے معاونت مانگی جارہی ہے‘ وزیراعظم کا جرم کونسی عدالت ثابت کرے گی‘ صادق اور امین کی تعریف آئین میں موجود نہیں اس کا تعین کس سے ہوگا‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 62-63 کی موجودہ حالت کیا ہے‘ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ خود کو ناگزیر سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں‘ حاکم محکوم کی تفریق 1947 سے پہلے تھی اب سب کو قاضی کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے‘ کسی بھی رکن کو سزا دئیے بغیر کیسے نااہل قرار دے دیں‘ کوئی فوجی ہو یا عام شخص جرم ثابت ہونے کی سزا عدالت نے ہی دینی ہے‘ اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیاں آئیں اسلئے اطلاق کا جائزہ لینا چاہتے ہیں‘ سندھو نے اپنی درخواست میں کئی اہم آئینی اور قانونی نکات اٹھائے ہیں جس سے اٹارنی جنرل کا موقف جاننا چاہتے ہیں‘ سپریم کورٹ آئین اور قانون تو نہیں بناتی تاہم عملدرآمد اس کی ذمہ داری ہے فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے آئین سے کوئی روگردانی نہیں کرسکتا جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ صادق اور امین کی تعریف تو آئین میں کی ہی نہیں گئی ایسے میں اس کا اطلاق کیسے ہوگا‘ معاملہ انتہائی اہم ہے اس پر سوچ سمجھ کر فیصلہ دینا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے اس پر کون کیا سوچتا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار گوہر نواز سندھو نے دلائل دیتے ہوئے کئی اہم معاملات کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کروائی۔

انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ آئین میں فوج اور عدلیہ کی توہین کا ایک ساتھ ذکر ہے مگر عدالتی توہین کا تو آرٹیکل 204 میں ذکر کردیا گیا ہے لیکن فوج کے حوالے سے معاملات تشنہ ہیں۔

یہ آئین کے مطابق نہیں ہوگا کہ ان کی درخواست کو سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بھیج دیا جائے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ہمارا کام آئین و قانون بنانا نہیں اس پر عملدرآمد کروانا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں اور دنیا میں خود کو ناگزیر سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ملک نہیں چلے گا۔

ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے آئین اور قانون کے تابع رہ کر کرنا ہوگا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کیونکہ درخواست گزار نے کئی اہم امور اٹھائے ہیں اسلئے ممکن ہے کہ ہم اسحق خاکوانی کی درخواست کو اس سے الگ کردیں۔ اٹارنی جنرل سے معاونت چاہتے ہیں وہ کہاں ہیں۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں ریکوڈک کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف کمپنیوں نے مقدمہ درج کررکھا ہے۔ اٹارنی جنرل اسی سلسلے میں لندن میں ہیں‘ اگلے ہفتے آجائیں گے اس پر عدالت نے سماعت ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔