سینٹ قائمہ کمیٹی پٹرولیم و قدرتی گیس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس،کمیٹی کا وفاقی وزیر شاہد خاقان کی اجلاس میں مسلسل غیر حاضری پر شدید تحفظات کا اظہار،دھرنے موجودہ حکومت کی فرعونیت کے باعث ہیں، میں نے کبھی حکومت کی ہمدردی میں بات نہیں کی،صرف جمہوریت کی بالادستی کے لئے تقریر کی ہے، سینیٹر عبد النبی بنگش

جمعہ 3 اکتوبر 2014 09:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اکتوبر۔2014ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی گیس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز کنوینئر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش کی زیر صدارت منعقد ہوا۔جس میں کمیٹی نے وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی گیس شاہد خاقان عباسی کی کمیٹی کے اجلاس میں مسلسل غیر حاضری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔کنوینئر کمیٹی سینیٹر عبد النبی بنگش کا کہنا تھا کہ قبل ازیں کوہاٹ ،بلوچستان اور کراچی کے اجلاسوں میں وزراء اور سیکرٹریوں نے شرکت نہیں کی نہ ہی اعلی حکام نے شرکت کی ۔

اگر ان میں خواہش یا تھوڑا سا بھی عزم ہوتا تو وہ اس ملک کو اپنا سمجھتے تاہم وہ تو صرف یریو لیجز لیتے ہیں ۔ان کو اسی رویہ نے ڈبویا ہے اور ان کی کشتی ڈوبنے والی ہے پھر بھی عقل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

دھرنے موجودہ حکومت کی فرعونیت کے باعث ہیں میں نے کبھی حکومت کی ہمدردی میں بات نہیں کی ۔صرف جمہوریت کی بالادستی کے لئے تقریر کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزراء کا یہی رویہ رہا تو یہ جلد اپنے گھروں کو جائیں گے ۔

کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ وہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے فلور پر اٹھائیں گے اور وفاقی وزیر کے خلاف تحریک استحقاق پیش کریں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت حکومت بحران میں ہے تاہم وہ اس بحران پر توجہ دینے کے اجلاسوں میں مصروف ہے یہ کیسے اجلاس ہیں کہ جن میں وزیر داخلہ چوہدری نثار تو آتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کو کوئی پوچھ سکتا ہے۔ کمیٹی نے گیس فراہم کرنے والے علاقوں پر گیس کے منافع میں سے ایک فیصد ان علاقوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ نہیں کیا جارہا ہے اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کے ساتھ دیگر صوبوں کی نسبت سخت امتیازی سلوک جاری ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل158 کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔

اجلاس کے دوران کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرک،شکر درہ اور ہنگو میں امن و امان کی ناقص صورت حال کے باعث کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی کے ضمن میں فلاحی سہولیات فراہم نہیں کی ۔کنوینیئر کمیٹی سینیٹر عبد النبی بنگش کا کہنا تھا کہ مقامی افراد میں آگاہی پیدا کرنا چاہیے کہ ہنگو ،کرک اور کوہاٹ میں خوشحالی آئے گی اور چند مٹھی بھر قانون شکن عناصر یا دہشت گرد اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ۔

کوہاٹ سے رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ بنگش نے زور دیا کہ مقامی افراد کو اس عمل میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جانا چاہیے ۔ریٹائرڈ فوجیوں کی بجائے مقامی افراد کو پولیس یمں شامل کیا جانا چاہیے ۔مقامی حالات کے باعث وہ پہلے بھی تربیت یافتہ ہیں اور ذمہ داریاں بطریقہ احسن نبھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چار ماہ قبل مہمند زئی میں عوامی کچہری کے دوران او جی ڈی سی ایل کی جانب سے کھدائی کے کام کے لئے این او سی کے حصول کے لئے کمپنی باغ کوہاٹ کو اپنی سرپرستی میں لینا ہوگا۔

اس موقع پر کنوینئر کمیٹی عبد النبی بنگش نے ضیاء اللہ بنگش کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے زور دیا کہ مقامی نوجوانوں کو چند روزہ بنیادی و سرکاری تربیت دیکر سکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس سے علاقہ میں بے روز گاری جیسے مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔انہوں نے ایس این جی پی ایل کی جانب سے کوہاٹ میں نئے کنکشنوں کے لئے پائپ لائن بچھا کر اس حوالے سے ایک ماہ میں رپورٹ بھی طلب کرلی۔

کنوینئر کمیٹی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق کسی بیھ علاقے میں آئل اینڈ گیس کی دریافت کی صورت میں پہلا حق مقامی علاقہ کی ضروریات کا ہے تاہم تحصیل ہنگو میں صورت حال اس کے برعکس ہے حتی کہ مقامی افراد کو روز گار فراہم نہیں کیا جارہا باود کہ وفاقی وزیر برائے پٹرولیم نے خود بھ اس حوالے سے پالیسی کی تائید کی تھی کہ کسی بھی علاقہ میں تیل و گیس کے دریافت ہونے کے بعد80 فیصد مقامی افراد کو متعلقہ سرگرمیوں میں کھپایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر مقامی افراد کی ضروریات اور مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ ان کو ان کے آئینی حقوق فراہم نہ کئے گئے تو وہ علاقہ میں گیس کی رسد کو روک دیں گے ۔او جی ڈی سی ایل کی جانب سے مہمند زئی میں کام شروع کرنے کے لئے این او سی کے حصول کے حوالے سے کمپنی باغ کی سرپرستی کے باوجود این او سی نہ ملنے کے مسئلہ پر کمیٹی نے ایک ہفتہ میں مسئلہ کو حل کر کے اس حوالے سے رپورٹ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کر دی ۔

شکر درہ میں پٹرول کی عدم موجودگی اور ان کی رسد منقطع کرنے کے حوالے سے ایس این جی پی ایل کے ارباب کا کہنا تھا کہ علاقہ میں گیس کے میٹر لگائے گئے تھے تاہم مقامی افراد نے میٹر اتار لئے اور وہ گیس کے بل ادا کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں ۔کنوینئر سینیٹر عبد النبی بنگش کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ان حقوق سے آگاہی ہونا چاہیے جو کہ آئین گیس و تیل کی دریافت کی صورت میں ان کے علاقوں کو فراہم کرتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جو علاقہ خیبر پختونخواہ ملک کی ضروریات کا 60 فیصد 50 ہزار بیرل یومیہ تیل پیدا کررہا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو وہ دو برس میں ایک لاکھ بیرل یومیہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔ایم او ایل (سول)) اور او جی ڈی سی ایل دونوں پانچ ارب روپے کا اس علاق سے منافع لے رہے ہیں تاہم یہ کمپنیاں ان کو کسی قسم کی سہولیات فراہم کررہی ہیں ۔ایسا تو اسرائیل میں بھی نہیں ہوتا۔

اس موقع پر ان کو مطلع کیا گیا کہ صوبہ سے او جی ڈی سی ایل 26 ہزار بیرل یومیہ جبکہ مول18 ہزار بیرل یومیہ تیل نکال رہی ہیں۔عبد النبی بنگش نے زور دیا کہ ان کمپنیوں کو مقامی افراد کو پینے کا پانی ،تعلیم اور صحت کی سہولیات بہتر صورت میں فراہم کرنا ہوں گی ۔۔رکن قومی اسمبلی ناصر خان خٹک نے سوال کیا کہ 50 کروڑ کی لاگت سے کیسے وفاق رائلٹی کی مد کو استعمال کر کے کرک میں جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کر سکتا ہے جس کے بعد کرک کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کی ایک برس کی رائلٹی کو استعمال کر کے کرک میں یونیورسٹی اور جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کیا جارہا ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل145 کی خلاف ورزی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی افراد گیس کنکشنوں کے حصول میں امن وامان کی صورت حال کے باعث زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔عارف مید ایم ڈی ایس این جی پی ایل نے کمیٹی کو بتایا کہ 350 ملین کیوبک فیٹ یومیہ گیس خیبر پختونخواہ سے نکل رہی ہے تاہم سردیوں میں پیداوار300 ملین کیوبک فیٹ ہے جو کہ عام طور پر مقامی افراد بھی استعمال کر لیتے ہیں جبکہ 10 فیصد گیس چوری کی مد میں نقصان کا سامنا ہے تاہم کنوینئر کمیٹی نے ان کے اعدادو شمارسے اختلاف کیا ۔

ایم ڈی ایس این جی پی ایل نے بتایا کہ40 ملین کیوبک فیٹ گرمیوں اسلام آباد اور پنجاب کو فراہم کی جاتی ہے تاہم سردیوں میں ساری اسلام آباد اور پنجاب کو فراہم کی جاتی ہے تاہم سردیوں میں ساری گیس صوبہ میں بھی استعمال ہوتی ہے۔پنجاب کی تیل و گیس کی پیداوار میں پانچ فیصد حصہ ہے جبکہ خیبر خیبر پختونخوا کا تیل و گیس کی ملکی پیداوار میں15فیصد حصہ ہے اس پر کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ پنجاب جو کہ صرف ملکی ضروریات کی پانچ فیصد گیس پیدا کررہا ہے وہاں تیل و گیس کا نیٹ ورک80 ہزار کلو میٹر سے زائد ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کا ملکی گیس کی پیداوار میں حصہ15 فیصد ہے وہاں صرف40 ہزار کلو میٹر کا نیٹ ورک ہے جس میں صوبہ میں تیل و گیس پیدا ہوں ۔

آپ کو وہاں اضافی گیس فراہم کرنا چاہیے ۔ناصر خان خٹک نے اعتراض کیا کہ گیس کی فی یونٹ قیمت مختلف صوبوں میں مختلف ہے جو کہ ایک امتیازی سلوک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم پالیسی جو کہ2012 میں بنائی گئی ۔ایک جعلی پالیسی ہے اور ایسا لگتا ہے ۔کسی بیورو کریٹ نے گھر بیٹھ کر بنا دی ہے ۔اس پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جہاں گیس و تیل نکالے جاتے ہیں ان صوبوں کے لئے تو کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔

کمیٹی نے پٹرولیم کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پٹرولیم پالیسی اور اس کے باعث صوبوں میں ہونے والے استحصال پر قومی اسمبلی و سینٹ کی پٹرولیم کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں تفصیلی بات چیت کرنے کا اعادہ ظاہر کیا ۔ایم او ایل کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی کے ضمن میں ایم او ایل قانونی طور پر مقامی افراد اور علاقہ کی ترقی کے لئے 2 لاکھ50 ہزار امریکی ڈالرز ہر صورت خرچ کرنے کی پابند ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پورے صوبے سے348 ملین ٹن یومیہ ایل پی جی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے تاہم او جی ڈی سی ایل حکام نے واضح کیا کہ ان کی خیبر پختونخواہ میں میلہ۔ نیشیا اور چند فیلڈ ہیں تاہم ان میں سے ایل پی جی پیدا نہیں ہو رہی ۔سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید نے کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں ایل پی جی پالیسی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کو ایل پی جی کی رائلٹی پر ورونڈخال لیوی پر تفصیلی بریفنگ دینے کا عزم کیا ۔

کمیٹی نے عید کے بعد کوہاٹ ،ہنگو،کرک اور شکر درہ کا دورہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ خود وہاں جا کر عملی طور پر تیل و گیس کے حوالے سے صورت حال ،علاقہ کی مشکلات اور دیگر متعلقہ موضوعات کا مشاہدہ کریں گے اور اس حوالے سے ریکارڈ کا جائزہ بھی لیں گے ۔کنوینئر کمیٹی کا کہنا تھا کہ او جی ڈی سی ایل اور ایم او ایل ملازمتوں کے حوالے سے اخبارات میں صرف ایک اشتہار اور ای میل دیئے دیتے ہیں اور امید واروں کو کوئی وجہ بتائے بغیر رد کر دیتے ہیں۔

انہوں نے اپنی مناپلی (بالادستی) قائم کررکھی ہے اور ان کے ایچ آر شعبوں پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ او جی ڈی سی ایل اور ایم او ایل دونوں کھلے اشتہارات سے شفاف طریقہ سے ملازمتوں کے لئے امید کار کا چناؤ کریں۔ایس این جی پی ایل حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کرک ،شکردہ ،ہنگو وغیرہ سے گیس لاسز دس فیصد ہیں جن کی بنیادی وجہ امن وامان کی ناقص صورت حال ہے جبکہ کرک میں صرف غیر قانونی گیس چوری نمبر 100 کمرشل اور27 انڈسٹریل کنکشن منقطع کئے گئے ہیں ۔

27 انڈسٹریل کنکشن منقطع ہونے پر ایف آئی اے نے11 ایف آئی آر در ج کی ہے تاہم ابھی تک 156 ایف آئی آر درج کرنے کے لئے درخواست دی ہوئی ہے تاہم پولیس تعاون نہیں کررہی ہے جس پر کمیٹی نے ڈی پی او کرک فضل حنیف کو ایف آئی آر درج کر کے ایک ہفتہ میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

متعلقہ عنوان :