جنوری تک سٹیل مل کی پیداوار75فیصد تک بڑھائیں گے،اگلے چند سالوں میں 83فیصد ملازمین ریٹائرڈ ہوجائیں گے،سی ای او سٹیل مل، جب تک سٹیل مل کی پیداوار77فیصد تک نہیں آتی وہ منافع میں نہیں آسکتی، مرتضیٰ جتوئی،حکومت نے چینی پر سبسڈی بند کردی50فیصد سٹورز خسارے میں چلے گئے اگر10کی بجائے6چیزوں پر سبسڈی دی جائے تو سیل بہتر ہوسکتی ہے،ایم ڈی یوٹیلٹی سٹور،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوارکے اجلاس میں بریفنگ

بدھ 1 اکتوبر 2014 08:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اکتوبر۔2014ء)پاکستان سٹیل مل کے چیف ایگزیکٹو آفیسرمیجر جنرل(ر)ظہیر احمد نے کہا ہے کہ پرانے پلانٹس کی مرمت کیلئے اگلے تین سال میں8ارب روپے درکار ہیں،جنوری تک سٹیل مل کی پیداوار75فیصد تک بڑھائیں گے،اگلے چند سالوں میں83فیصد ملازمین ریٹائرڈ ہوجائیں گے،وفاقی وزیر برائے صنعت وپیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ جب تک سٹیل مل کی پیداوار77فیصد تک نہیں بڑھائی جاتی وہ منافع میں نہیں آسکتی۔

منیجنگ ڈائریکٹر یوٹیلٹی سٹورز نے کہا کہ حکومت نے چینی پر سبسڈی بند کردی ہے جس سے50فیصد سٹورز خسارے میں چلے گئے اگر10کی بجائے6چیزوں پر سبسڈی دی جائے تو سیل بہتر ہوسکتی ہے۔یہ بات منگل کو یہاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوارکے اجلاس میں کہی گئی جو چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سینیٹرز سردار فتح محمد محمد حسنی ،حاجی خان آفریدی ، کامران مائیکل اور سعید غنی کے علاوہ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار ، ایڈیشنل سیکریٹری صنعت و پیداوار ، چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان سٹیل مل جنرل ریٹائرڈ ظہیر احمد، پاکستان انڈسٹری ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سی ای او اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جنرل (ر )ظہیراحمد نے پاکستان سٹیل مل پرتفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مل کا افتتاح 1973میں ہوا اور اسکی پیداوار 1985میں شروع ہوئی اور اس کی سالانہ پیداوار 1.1ملین ٹن ہے ۔

یہ مل روس کے ٹیکنیکل اور مالی تعاون سے 24.7بلین روپے سے قائم کی گئی تھی مل کا رقبہ 19087ایکڑ ہے 10390ایکٹر پر مین پلانٹ تیار ہے 8070ایکٹر پر ٹاوٴن شپ بنایا گیا ہے اور 2سو اایکڑ میں پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع بنائے گئے ہیں یہ مل 20مختلف یونٹس پر مشتمل ہے جس پر 3لاکھ 30ہزار ٹن مشینری اور سٹیل سٹکچر اور الیکٹریکل ایکیوپمنٹ لگایا گیاہے ۔یہ پاکستان کی سب سے بڑی مل ہے اور اس میں 110ملین گیلن پانی جمع کیا جا سکتا ہے جو ایشیاء میں سب سے بڑا ذرائع ہے ۔

مل میں 110میگا واٹ کا تھرمل پاور پلانٹ بھی لگایا گیا ہے ۔مل کی اپنی ریلوے لائن 56کلو میٹر پر مشتمل ہے جو ٹرانسپورٹ کے کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔اس میں کیڈٹ کالج بھی بنایا گیا ہے اور کام کرنے والوں کو صحت ، تعلیم ،رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہیں ۔مل کے 15465ملازمین کی منظوری ہے جبکہ 15274لوگ کام کر رہے ہیں جن میں سے 14426ریگولر اور 848ڈی ویجز پر ہیں ۔

مل میں 4627آفیسر اور 9789ورکر کام کرتے ہیں اس مل نے 74.4ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے یہ 2000-2008تک منافع بخش ادارہ تھا ۔اس کا ماہانہ خرچہ 3.5ارب روپے ہے جس میں تنخواہیں اور خام مال کی خریدو فروخت شامل ہے ۔ مل میں مقامی لوہا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور 9بلین کا لوہا آسٹریلیاء اور دیگر ممالک سے امپورٹ کیا جاتا ہے مقامی لوہا اچھے معیار کا نہیں ہے اس لئے باہر سے منگوایا جاتا ہے ۔

ظہیر احمد نے کہا کہ 6ماہ قبل انہوں نے چارج سنبھالا تھا تو فیکٹری کی صلاحیت 1.4فیصد پر تھی اب 25فیصد پر ہوگئی ہے دسمبر میں 70فیصد پر ہو جائیگی اور اگلے سال 80فیصد پر لیجانے کا ٹارگٹ ہے انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی سفارش کرے کہ ہمیں 3سالوں میں 8ارب روپے فراہم کر دیے جائیں تو اس ادارے کو دوبارہ منافع بخش بنا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ٹیکنیکل لوگ عمر رسیدہ ہو چکے ہیں اور اگلے تین سالوں کے دوران 2669لوگ ریٹائر ہوجائیں گے اور 2020تک 6ہزار لوگ ریٹائر ہو جائیں گے۔

کمیٹی یہ بھی سفارش کرے کہ ہمیں 2014سے لے کر 2018تک سالانہ تین سو ٹیکنیکل افراد بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ کو کرپشن فری بنانے کے اقدامات کئے گئے ہیں اس مل کے منافع بخش ہونے سے پوری قوم اور ملک کا فائدہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ ایس آر اوز جن کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے حکومت انکو ختم کرے ۔سٹیل کی سمگلنگ کو کنڑول کر کے اس ادارے کی مدد کی جائے،ڈی ٹی آر ای کو ختم کیا جائے اور دس فیصد کسٹم ڈیوٹی لگائی جائے ۔

وفاقی وزیرصنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ پاکستان سٹیل مل میں ایک مافیا سرگرم تھا جس کو ختم کر دیا یا ہے ۔اراکین کمیٹی نے وفاقی وزیر سے سفارش کی کہ ادارے میں سے چھوٹی چھوٹی خامیوں کو دور کر کے اس میں بہتری لائی جائے تاکہ اس مل کو ملکی صنعتی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہو سکے ۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ مالی مسائل کو دور کرنے کیلئے یہ ادارہ اپنی کمرشل زمین کو فروخت کر کے مسائل کو دور کرے ۔

اراکین کمیٹی نے پاکستان سٹیل مل کی طر ف سے بجھوائے گئے ورکنگ پیپر اور دی گئی بریفنگ پر اطمینا ن کا اظہار کیا اور سیکریٹری صنعت و پیداوار کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے پاکستان سٹیل مل کراچی کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔قائمہ کمیٹی نے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی بریفنگ آئندہ اجلاس میں اس کے ذیلی اداروں کی شمولیت کیساتھ لینے کا فیصلہ کیا اور یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کے ایم ڈی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس رمضان میں حکومت نے دس چیزوں پر سبسڈی فراہم کی تھی اور اس دفعہ بہتر معیار کیساتھ چیزیں فراہم کی گئیں اور چیزوں کو چوری ہونے سے بھی بچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ رمضان کے بعد چینی کے علاوہ تمام چیزوں پر سبسڈی ختم کر دی گئی اور اپریل میں چینی پر بھی سبسڈی ختم ہونے سے ہمارے پچاس فیصد سٹورز نقصان پر جا رہے ہیں ۔ ہم ہر سال ایک ارب روپے کا منافع حکومت کو فراہم کرتے تھے ۔اگر سبسڈی بحال نہ کی گئی تو یہ ادارہ تباہ ہو جائیگا۔ حکومت دس کی بجائے چھ بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈی دے اس سے ہماری سیل بڑھ جائیگی ۔کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ایم ڈی یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کو تجاویز کمیٹی میں پیش کرنے کی سفارش کر دی ۔

متعلقہ عنوان :