کارکنان کے قتل کا مقدمہ کیس،تحریک انصاف نے حکومتی جواب کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا،وفاقی حکومت جواب کی بجائے باضابطہ اپیل دائرکرے ،جواب قانون کے مطابق نہیں، مسترد کرنے اور ماتحت عدالت کے حکم پرعمل کرنے کی ہدایت جاری کرنے کی استدعاء

پیر 29 ستمبر 2014 08:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29ستمبر۔2014ء )پاکستان تحریک انصاف نے اپنے کارکنان کے قتل کے مقدمہ کے اندراج کے حوالے سے سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر اپناتحریری جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیاہے ،جواب میں وفاقی حکومت کے تمام تر نکات کوآئین وقانون کی روشنی میں رد کیاگیاہے اور یہ جواب حامد خان نے تیارکیاہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق گیارہ صفحات پرمشتمل جواب میں کہاگیاہے کہ وفاقی حکومت عدالت میں جواب داخل کرنے کی بجائے باضابطہ اپیل دائرکرے ،اپیل کے بغیران کاجواب قانون کے مطابق نہیں لہٰذاجواب مسترد کیاجائے اور ماتحت عدالت کے حکم پرعمل کرنے کی ہدایت جاری کی جائے جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے قتل میں وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت 11 شخصیات کے خلاف مقدمہ پر حکومت سپریم کورٹ سے ریلیف مانگتے ہوئے باضابطہ اپیل کی بجائے سپریم کورٹ میں تحریری بیان پہلے ہی جمع کرا چکی ہے ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری بیان جمع کرایا گیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، وفاقی وزراء سمیت 11 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف شاہراہ دستور پر قتل کے مقدمہ کے اندراج کا عدالتی حکم غیر قانونی ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ سیشن جج نے لاء آفیسر کے دلائل کو نظر انداز کیا۔

سیاسی انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم انصاف پر مبنی ہے۔ امن و امان کو برقرار رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انتظامیہ نے ہر ممکن حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن دھرنے والوں نے وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی باڑ توڑ کر قانون کی خلاف ورزی کی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایکشن میں اسلحہ بارود استعمال نہیں ہوا، جواب میں کہا گیا ہے کہ شاہراہ دستور پر تصادم میں تین افراد جاں بحق ہوئے، دو افراد کی موت مظاہرین کی اپنی فائرنگ سے ہوئی جبکہ ایک شخص کی موت طبعی تھی۔

حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی رٹ اور امن عامہ کی ذمہ داری کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا پڑا۔ 31 اگست کو واقعہ کی ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی جس کی تفتیش جاری ہے۔ دوسری ایف آئی آر حقائق کے خلاف اور پراپیگنڈے پر مبنی ہے، دوسرا مقدمہ درج کرنے والوں کو اسی مقدمہ کی تفتیش میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کی خلاف ورزی پر پولیس نے لوگوں کو پکڑا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا، جواب میں سپریم کورٹ سے ریلیف کی استدعا کی گئی ۔