ڈیلس:امریکی عدالت نے پاکستانی نژاد ڈاکٹر کو20سال کی سزا سنادی ،ڈاکٹر طارق محمود کو میڈی کیئر اور میڈی کیٹڈ سے 101 ملین ڈالر فراڈ کے مقدمہ میں سزا دی گئی

ہفتہ 27 ستمبر 2014 08:30

ڈیلاس(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27ستمبر۔2014ء) پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر ماہر امراض قلب اور سابقہ 6 اسپتالوں کے مالک ڈاکٹر طارق محمود کو فیڈرل جیوری کی جانب سے اْن پر قائم فراڈ اور جعلسازی کے ذریعے میڈی کیئر اور میڈی کیٹڈ سے 101 ملین ڈالر فراڈ کے ایک مقدمہ میں مجرم قرار دیتے ہوئے 20 سال سزا کے احکامات جاری کئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر طارق محمود پر ریاست ٹیکساس کے شہر ٹائلر میں قائم فیڈرل جیوری نے تین روز تک جاری مقدمہ کی سماعت کے آخر میں یہ فیصلہ دیا۔

اْن پر گزشتہ سال ایف بی آئی اور دیگر ایجنسیوں نے تحقیقات کے نتیجے میں ایک مقدمہ قائم کیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت کے زیرانتظام محکمہ صحت سے خورد برد اور جعلسازی کے ذریعے 101 ملین ڈالر حاصل کئے جس میں انہوں نے اپنے ملازمین پر زور دیا کہ وہ غلط کوڈنگ کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کریں۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں عدالت میں دو سابقہ ملازمین کو بھی بحیثیت گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر طارق محمود اس طرح کے جعلی کلیم داخل کرنے کیلئے اْن پر اثر و رسوخ استعمال کرتے تھے جبکہ اس سلسلے میں تعاون نہ کرنے پر انہوں نے ایک ملازم کو نوکری سے بھی برطرف کر دیا تھا۔

ملازمین کا کہنا تھا کہ ان کے سابقہ 40 سالہ پیشہ ورانہ کیریئر کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ اسپتال کا مالک خود فون اور فیکس کر کے مطلوبہ کوڈ شامل کرنے کیلئے ان کو ہدایات دیتا تھا۔ تاہم دوران سماعت ڈاکٹر طارق محمود کے وکیل کا کہنا تھا کہ بحیثیت بزنس مین ان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ملازمین سے کلیم سے متعلق معلومات لیں اور اگر بحیثیت ایک بزنس مین ان کے خیالات حکومت کی جانب سے متعلقہ کوڈ کے ضمن میں ایک جیسے نہیں تھے تو یہ ان کا حق تھا اس طرح یہ الزام کرائم کے زمرے میں نہیں آتا۔

ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے بینک کرپسی میں پڑے اسپتالوں کو حاصل کیا اور وہ (مریضوں) کی مدد کیلئے آئے مگر اس کے جواب میں ان کو کیا ملا؟۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر طارق محمود 6 اسپتالوں سمیت دیگر کئی بزنس کے مالک تھے تاہم ان کے خلاف مذکورہ تحقیقات کے بعد ایک اور مقدمہ داخل کیا گیا تھا جس میں ان پر حکومت کے معاشی اصلاحات کے پیکیج کے ذریعے حکومت سے 19 ملین ڈالر غلط بیانی حاصل کرنے کا الزام شامل ہے جس میں ان پر 7 مختلف الزامات قائم کئے گئے ہیں جس میں سے اگر ایک الزام ثابت ہو جاتا ہے تو سزا 5 سال ہے جبکہ دوسرے الزام پر سزا 2 سال ہے اور اگر یہ تمام الزامات بھی ثابت ہو جاتے ہیں تو ان کو دوسرے مقدمے میں 37 سال قید کا سامنا کرنا ہو گا۔

دوسرے مقدمے میں ان کے ہمراہ ان کے اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر جو وائٹ کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ مذکورہ مقدمہ بھی عنقریب چلنے کا امکان ہے۔ مذکورہ 20 سال سزا پر عملدرآمد کیلئے جیوری نے اگلے سال کی تاریخ مقرر کی ہے۔ ڈاکٹر طارق محمود اس وقت ہیلتھ کیئر بزنس سے بالکل آؤٹ ہو گئے ہیں اور وہ تمام اسپتالوں کی ملکیت سے بھی فارغ ہو گئے ہیں تاہم اب بھی ان کے پاس کئی ہوٹل اور دیگر بزنس ہیں جو عملی طور پر ان کی اہلیہ کی ملکیت بتائے جاتے ہیں۔

دریں اثناء ہیلتھ کیئر فراڈ کے مقدمہ میں پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر طارق محمود کی فیڈرل جیوری سے سزا کے بعد پاکستانی اور امریکن کمیونٹی نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ امریکن کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طارق نے ٹیکس دینے والے افراد کی رقم خوردبرد کی اور اب 20 سال کی سزا جو دی گئی ہے اْس پر مزید ٹیکس دینے والوں کی رقوم خرچ ہو گی۔

ایک اور امریکن شہری کا کہنا ہے کہ ان کو واپس کب اپنے ملک روانہ کیا جائیگا۔ دوسری جانب پاکستانی کمیونٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں لوگ کس طرح اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ڈاکٹر طارق کے خلاف عدالتی فیصلے سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذاتی حیثیت میں کیا مگر اس سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے جس پر ان کو شرمندگی ہے۔

ایک ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ میں رہنے والے اکثریتی پاکستانی ڈاکٹر یہ دو نمبر کام کرتے ہیں اور جو بھی اس طرح کرتا ہے یہ ان کیلئے ایک سبق ہے کہ وہ پرانے دھندے چھوڑ کر راہ راست پر آ جائیں کیونکہ ہر چیز ڈالر سے حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ کئی پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں جو بھی اس طرح کا فراڈ کرے گا ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جائے گا یہ پاکستان نہیں ہے کہ وہ رشوت دے کر یا دباؤ ڈلوا کر مقدمہ سے بری ہو جائے۔ تاہم اکثریتی پاکستانی افراد نے اس مقدمے کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :