دھرنوں کے لیڈروں کی ٹرائیکا نے انٹرویوز کی تیسری سنچری کر لی، حکومتی وزراء اور نوازشریف کے حامی رہنما صرف ایک سنچری بھی بمشکل کر سکے ، شیخ رشید 170انٹرویوزکے ساتھ بازی لے گئے،عمران خان سے 75اور ڈاکٹر طاہر القادری سے 60انٹرویوکئے گئے،یہ معاملہ اب بھی بحث طلب ہے کہ کیا اس کی وجہ سے لوگوں کا حکومت اور موجودہ نظام پر اعتماد کم ہوا ہے؟،رپورٹ

جمعہ 26 ستمبر 2014 08:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26ستمبر۔2014ء) وفاقی دارالحکومت میں جاری دھرنوں کے لیڈروں کی ٹرائیکا نے انٹرویوز کی تیسری سنچری بھی کر لی جبکہ حکومتی وزراء اور نوازشریف کے حامی رہنما صرف ایک سنچری بھی بمشکل کر سکے ۔ شیخ رشید بازی لے گئے جنہوں نے مجموعی طور پر مختلف چینلز کو 170انٹرویودیئے جبکہ عمران خان سے 75اور ڈاکٹر طاہر القادری سے 60انٹرویوکئے گئے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کی اور کوئی شکایت جائز ہو نہ ہو لیکن آج کے پاکستان میں کم سے کم وہ اور ان کے ہم خیال دانشور، صحافی، اینکر پرسن اور دیگر حلقے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں ملک کے لوگوں کے سامنے اپنی بات رکھنے اور انھیں قائل کرنے کا موقع نہیں ملا۔یکم نومبر 2013 سے 12 اگست 2014 تک پاکستانی ٹی وی چینلوں پر سینکڑوں خصوصی انٹرویو ہوئے اور ان میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستانی عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما ہی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

12 اگست کے بعد تو جب ان رہنماوٴں کا لاہور سے شروع ہونے والا مارچ اسلام آباد پہنچا ملک کے تقریباً تمام چینلوں کی توجہ مسلسل انہی رہنماوٴں کی تقاریر پر تھی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے دن میں ایک سے زیادہ بار اپنے حامیوں سے خطاب کیے جو سبھی چینلوں پر براہ راست نشر ہوئے۔لانگ مارچ سے پہلے دس ماہ کی مدت میں پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے مختلف نِجی ٹی وی چینلوں پر تقریباً 170 انٹرویو ہوئے۔

دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں جنھیں تقریباً 75 بار انٹرویو کے لیے بلایا گیا اور پھر طاہر القادری کا نمبر آتا ہے جن کے تقریباً 60 انٹرویو کیے گئے۔

گویا ان تین رہنماوٴں کے کل انٹرویوز کی تعداد 300 سے بھی زیادہ بنتی ہے جبکہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے تمام رہنماوٴں کے ساتھ کیے گئے خصوصی انٹرویوز کی کل تعداد ایک سو سے بھی کم ہے۔

اس میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰٰ شہباز شریف کے چند خصوصی انٹرویو بھی شامل ہیں۔پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماوٴں یا نمائندوں کے خصوصی انٹرویو کی کل تعداد بھی لگ بھگ ایک سو ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم میڈیا نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ساتھ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری کر دیا۔

اس گنتی میں ان رہنماوٴں کے جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب شامل نہیں جن کی الگ سے خصوصی کوریج کی گئی۔ اس جائزے میں وہ انٹرویو شامل ہیں جو نِجی ٹی وی چینلوں نے اپنے ٹاک شوز میں کیے۔ ان میں اے آر وائی، وقت، سماء، دنیا، کیپیٹل ٹی وی، نیوز ون، ایکسپریس، جاگ ٹی وی، ڈان، اب تک نیوز اور دیگر ٹی وی چینلوں کے ٹاک شو شامل ہیں۔ عمران خان ابتدا میں جیو کے پروگراموں میں آتے رہے لیکن حالیہ ہفتوں میں انھوں نے کئی بار اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جن انٹرویوز کا ذکر کیا جا رہا ہے ان کا اوسط وقت اشتہارات کو نکال کر 35 سے 45 منٹ ہے۔ ان میں ان رہنماوٴں کو اپنا موقف بیان کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا اور حکومت اور پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کے مخالف تینوں رہنماوٴں نے اس موقعے کو صرف حکومت اور نظام کے خاتمے میں عوام کی مدد طلب کرنے میں استعمال کیا۔ انھوں نے کھْل کر حکمرانوں اور دیگر سیاست دانوں پر الزامات لگائے اور ان سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات وضاحتی نوعیت کے تھے۔

یکم نومبر 2013 کو عمران خان کا ٹی وی چینل سی این بی سی پر پروگرام ’لائیو وِد مجاہد‘ میں خصوصی انٹرویو کیا گیا اور ان کی طرف سے تحریک چلانے کے اعلان کے بارے میں سوال ہوا۔ عمران خان کا جواب تھا کہ وہ سب کو سڑکوں پر نکالیں گے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں ایک سال لگ سکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’شاید اتنی دیر نہ لگے۔

یکم نومبر کو ہی شیخ رشید کا ٹی وی چینل ایکسپریس کے پروگرام تکرار میں ایک انٹرویو ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں قوم کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں، مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاوٴ، اس ملک کو بچانا ہے۔اس عرصے میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو کچھ ایسے پروگرام بھی کیے جن کا عنوان تھا ’انقلاب کے بعد کا پاکستان کیسا ہوگا۔

یہ سلسلہ خاص طور پر رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں شروع کیا گیا تھا۔المختصر ایک سال تک پاکستانیوں نے ٹی وی پر زیادہ تر وقت حکومت کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ’موجودہ سیاسی نظام‘ کے خلاف باتیں سنیں، دلائل سنے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ تقریباً تمام ٹی وی چینل ان تینوں رہنماوٴں کو اتنا وقت دینے پر متفق نظر آئے یا اس کے پیچھے کوئی سوچ کارفرما تھی؟اور یہ بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ کیا اس کی وجہ سے لوگوں کا حکومت اور موجودہ نظام پر اعتماد کم ہوا ہے؟۔