اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10 فیصد رکھنے کا فیصلہ

اتوار 21 ستمبر 2014 08:24

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21ستمبر۔2014ء )اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10 فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ہفتہ کوکراچی میں اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت گورنر اشرف محمود وتھرا نے کی۔اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا ہے کہ جولائی کے زری پالیسی فیصلے کے بعد کے دور میں مستحکم معاشی حالات برقرار رہے۔

نمایاں ترین پہلو عمومی (headline) گرانی تھی جو اگست 2014ء میں کم ہوکر 7.0 فیصد سال بسال ہوگئی جو جون 2013ء سے اب تک پست ترین سطح ہے۔ مزید یہ کہ مالی سال 14ء میں 4.1 فیصد کی بہتر شرح نمو ریکارڈ ہونے کے بعد حقیقی معاشی سرگرمی مالی سال 15ء میں جاری رہنے کی توقع ہے۔مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 14ء میں اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) 8.6 فیصد تھی جس کے بعد جولائی اگست 2014ء میں 7.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

(جاری ہے)

یہ زوال پذیر رجحان وسیع البنیاد ہے کیونکہ قوزی گرانی (core inflation) کے دونوں پیمانے غیر غذائی غیر توانائی (NFNE) اور تراشیدہ اوسط (trimmed) بھی اگست 2014ء میں سال بسال کم ہوکر بالترتیب 7.8 فیصد اور 7.14 فیصد ہوگئے جبکہ جون 2014ء میں 8.7 فیصد اور 7.9 فیصد تھے۔ اگرچہ اصل پست گرانی مارکیٹ کے احساسات پر مثبت اثر مرتب کرسکتی ہے تاہم زری پالیسی کے فیصلے کے حوالے سے گرانی کا آئندہ طرز عمل اہمیت رکھتا ہے۔

مالی سال 15ء کے لیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کا لگ بھگ 8 فیصد کا موجودہ منظرنامہ منفی طور پر تبدیل ہوسکتا ہے اگر بجلی کی زر اعانت (subsidy) کم کی گئی اور گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس لگایا گیا۔رپورٹ کے مطابق کم نمو کا مظاہر کرنے کے بعد حقیقی معاشی سرگرمی میں مالی سال 14ء کے دوران بحالی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے۔

تاہم نمو کے زور کا تسلسل بنیادی طور پر مالی سال 15ء میں زرعی پیداوار پر منحصر ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) کی نمو توانائی کی مسلسل قلّت، انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس کی پیداواری استعداد میں کمی، کھاد کے پلانٹس کو گیس کی کم فراہمی، چینی کے شعبے میں پست ملکی و بین الاقوامی قیمتوں اور غذا اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں بالترتیب بلند انونٹریز اور پست برآمدی نمو کے امکانات کی بنا پر محدود رہ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق برآمدات و درآمدات میں تازہ ترین رجحانات خصوصاً تیل کی ادائیگیوں کو ملحوظ رکھا جائے تو تجارتی خسارہ بیرونی جاری کھاتے کے خسارے پر غالب رہے گا خواہ کارکنوں کی ترسیلات ِزر میں بھرپور نمو ہو۔

بیرونی جاری کھاتے کے خسارے کو پورا کرنا مشکل عمل ہوگا۔ زوال پذیر نجی سرمایہ کاری رقوم، خصوصاً بیرونی براہ راست سرمایہ کاریاں، توازن ادائیگی کی صورتِ حال کو سنبھالنے میں مسلسل دشواریاں پیدا کریں گی۔ اس سلسلے میں متوقع نجکاری رقوم کی آمد اور ڈالر میں یورو بانڈ/صکوک کا اجرا اہم ہوگا۔رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا خطرات کے علاوہ موجودہ سیاسی تعطل، آئی ایم ایف کے چوتھے ریویو کی تکمیل میں تاخیر اور موجودہ موسلادھار بارشیں اور سیلاب جو وسطی و جنوبی پنجاب پر چھاگئے ہیں معاشی سرگرمی میں ابتدائی بحالی کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔

دو اوّل الذکر عوامل نجی سرمائے کی آمد پر زیادہ اثر ڈالیں گے۔

مؤخر الذکر پیداوار اور تلف پذیر غذائی اشیا کی سپلائی چین کو متاثر کرسکتے ہیں جو گرانی کے بصورت دیگر بہتر منظر نامے کے لیے دشواری کا باعث بن سکتا ہے۔ نقصانات کی پوری شدت سامنے آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے تاہم ابتدائی آراء اور ماضی کے تجربات سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سیلابوں سے خریف کی بعض فصلوں کو نقصان پہنچے گا اور عارضی طور پر سپلائی چین متاثر ہوسکتی ہے۔

معاشی نمو کے لیے مضمرات کے علاوہ سیلاب مالیاتی اور بیرونی شعبے پر دباؤ ڈال کر معاشی عدم توازن بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کم از کم ابتدائی طور پر نجی شعبے کے لیے قرض کی دستیابی بھی منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ ان خدشات کی عکاسی ستمبر 2014ء کے اسٹیٹ بینک آئی بی اے کے اعتماد صارفین سروے میں بگاڑ سے بھی ہوتی ہے۔رپورٹ کے مطابق معاشی خصوصاً بیرونی شعبے میں استحکام کو یقینی بنانے کے عمل اور سیلابوں کی وجہ سے ممکنہ نقصانات کی تلافی کے درمیان توازن لانے کی غرض سے محتاط پالیسیاں درکار ہیں۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10 فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔