دفعہ 144کا اسلام آباد میں نفاذ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق و ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے تحریری جواب مانگ لیا، عدالت نے پولیس کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں سے روک دیا،امن و امان کی ذمہ داری ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کا فرض ہے، کسی سیاسی جماعت کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ

جمعرات 18 ستمبر 2014 08:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18ستمبر۔2014ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کیخلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاق و ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے تحریری جواب مانگ لیا‘ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالت نے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی جبکہ عدالت نے پولیس کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں سے روک دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ امن و امان کی ذمہ داری ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر عائد ہوتی ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا عدالت کا فرض ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے ۔ بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں جہانگیر ترین بنام وفاق کیس کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل فرخ ڈال اور شیراز رانجھا عدالت میں پیش ہوئے۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل فیصل فاروق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مریم خان عدالت میں پیش ہوئیں جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جہانگیر ترین‘ ڈاکٹر عارف علوی‘ اسد عمر‘ شفقت محمود عدالت میں پیش ہوئے۔ ابتدائی سماعت کے دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل رخصت پر گئے ہیں اسلئے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے جبکہ امن و امان کیلئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دفعہ 144 کا نفاذ کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دفعہ 144 کا نفاذ کرسکتا ہے‘ عدالت کو مطمئن کیا جائے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو مزید بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی عدم موجودگی کی وجہ سے دفعہ 144 کے نفاذ کے حوالے سے عدالت کو آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔ درخواست گزار کے وکیل شیراز رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے سات اگست 2014ء کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت اسلام آباد کے ریڈ زون ایریا سمیت مختلف علاقوں میں دفعہ 144 لاگو کردیا گیا۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 144 کا نفاذ غیرقانونی ہے لہٰذا عدالت نوٹیفکیشن کو معطل کرے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتوں کو آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنا چاہئے۔ تمام سیاسی پارٹیاں آئین و قانون کی جنگ لڑ رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا گیا اور سپریم کورٹ کے سامنے بھی دھرنے دئیے گئے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو انتظامیہ کیساتھ تعاون کرنا اوراپنے احتجاج کو پرامن بنانا چاہئے۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن کسی بھی قومی ادارے پر حملہ نہیں کریں گے اور انصاف کی بالادستی کیلئے پی ٹی آئی اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک طرف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ایس ایس پی اسلام آباد کو مارا پیٹا جبکہ دوسری جانب پولیس نے اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر شعبان خالد کو بھی پیٹ ڈالا۔

اسلام آباد میں امن و امان کی تمامتر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس کو مجسٹریٹ کے احکامات کے باوجود کسی قسم کی کارروائی نہیں کرنی چاہئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی ضمانتیں کروانے کیلئے جب مجسٹریٹ کی عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں پر مجسٹریٹ ڈیوٹی پر موجود ہی نہیں ہوتے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ضمانتوں کے حوالے سے اسلام آباد کی مجسٹریٹ عدالتوں میں چوبیس گھنٹے کیلئے ایک مجسٹریٹ کو حاضر رہنے کے احکامات جاری کئے۔ عدالت نے واضح کیا کہ پولیس کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی کی گئی یا پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا یا پولیس کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کی تمامتر ذمہ داری ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر عائد ہوگی۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور وفاق کے وکیل سے تحریری رپورٹ عدالت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔