طاہر القادری اور اہ عمران خان سنجیدگی اور برد باری کامظاہر ہ کر یں، الطا ف حسین،” کچھ دو اور کچھ لو“ کے اصول پر گامزن رہتے ہوئے مذاکرات کافی الفوردوبارہ آغاز کریں،حکومت بھی دھرنے دینے والی جماعتوں کے مطالبات پر سنجید گی سے غور کرے،بیان

منگل 16 ستمبر 2014 09:25

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16ستمبر۔2014ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطا ف حسین نے حکومت او راسلام آباد میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنے دینے والی جماعتوں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماڈاکٹرطاہر القادری اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ وہ انتہائی سنجیدگی اور برد باری کامظاہر ہ کر یں اور” کچھ دو اور کچھ لو“ کے اصول پر گامزن رہتے ہوئے مذاکرات کافی الفوردوبارہ آغاز کریں ۔

اپنے ایک بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ دھرنے دینے والی جماعتیں حکومت کو درپیش مشکلات کا احساس کریں اور حکومت بھی دھرنے دینے والی جماعتوں کے مطالبات پر سنجید گی سے غور کرے کیونکہ دونوں جماعتوں کے پیش کرد ہ بیشتر مطالبات عوام کی سوچ وفکر کے عکاس ہیں ۔

(جاری ہے)

مثلاً جن حلقوں میں دونوں جماعتوں کے پاس ثبوت و شوائد ہیں کہ وہاں دھاندلی ہوئی ہے وہاں دوبارہ گنتی کرائی جائے ، ماڈل ٹاؤن لاہور میں علامہ طاہر القادری کے مرکز پر جمع ہونے والے نہتے مرد و خواتین پر فائرنگ کرکے انہیں شہید و زخمی کرنے والے اہلکاروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے نمائندگا ن اور ان کی ہم خیال جماعتوں کے ارکان ،جوائنٹ سیشن کے دوران پاک فوج اور ISIجیسے اداروں پر بے جا الزام تراشی سے گریزکریں کیونکہ اس طرح کے بے بنیاد الزامات سے نہ صرف اداروں کا تقدس مجر وح ہوتا ہے بلکہ پاکستان دشمن عناصر کو اس طرح کی الزام تراشی سے پاکستان کی جگ ہنسائی کا موقع میسرآجاتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ارکان ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے سے ہر قیمت پراجتنا ب کریں ۔

الطاف حسین نے کہاکہ عام آدمی کوبااختیاربنانا،جاگیر دارانہ اور موروثی نظام کا خاتمہ ، قومی خزانے سے لوٹی ہوئی رقم کی پاکستان واپس منتقلی کویقینی بنانا، لوکل باڈیز سسٹم کے نظام کو ملک کے چپے چپے میں نافذ کرنا ، ملک میں بہتر نظام حکومت چلانے کیلئے نئے انتظامی یونٹس یا نئے صوبوں کے قیام کو عمل میں لانا،پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنا، خواتین کومساوی حقوق دینا، چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا ،مزدوروں،کسانوں کو ان کے حقوق دینا ،اسپتالوں میں علاج معالجہ کے نظام کو جدید طر ز پر استوار کرنا اور انصاف کے حصول کیلئے عدالتی نظام کو آسان اور انتہائی سستا بنانا کہ ایک غریب آدمی بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا نے کابوجھ باآسانی اٹھا سکے ،یہ سب ایسے مطالبات ہیں جن کی کوئی مخالفت نہیں کرسکتا۔

ا نہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذل کلاس سے ورکنگ کلاس میں ہر گز رتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے اور دونوں جماعتوں کے پیش کردہ مذکورہ مطالبات مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ یہ صدی ڈی سینٹرلائزیشن کی صدی ہے اوراس میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے نئے صوبے یاانتظامی یونٹس کاقیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ آزادی کے وقت انڈیا کے 7صوبے تھے لیکن آج انڈیا میں 36صوبے ہیں،اسی طرح افغانستان میں صوبوں کی تعداد بڑھ کر 34ہوگئی ہے ، ایران میں صوبوں کی تعداد بڑھ کر 31ہوگئی ہے، ترکی میں صوبوں کی تعداد آج81ہوگئی ہے ۔ اسی طرح سری لنکا جیسے چھوٹے ملک میں 9صوبے ہیں،نیپال میں صوبوں کی تعدادپانچ ہے ۔جبکہ بھوٹان جہاں کی آبادی صرف ساڑھے سات لاکھ ہے وہاں 9صوبے ہیں لیکن 67سال گزرجانے کے باوجودپاکستان کے آج بھی محض چار صوبے ہیں۔ الطاف حسین نے کہاکہ وقت کاتقاضہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظرعوام کی بہتر سے بہتر خدمت کرنے اور عوام کونچلی سطح پر بااختیاربنانے کیلئے انتظامی بنیادوں پر کم ازکم 20نئے صوبے بنائے جائیں۔