سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، آبادیاں ملیا میٹ، مکین دربدر، فصلیں تباہ، تریموں بیراج کو خطرہ ٹل گیا، 11 لاکھ سے زائد افراد متاثر

جمعرات 11 ستمبر 2014 08:25

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11ستمبر۔2014ء) پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ حفاظتی بند توڑ کر جھنگ شہر کو تباہی سے بچا لیا گیا لیکن اٹھارہ ہزاری سمیت 100 سے زیادہ آبادیاں زیر آب آ گئیں۔ ساڑھے سات لاکھ کیوسک کا ریلا آج رات تریموں سے گزرے گا۔ ملتان کے کئی علاقے بھی پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کی نقل مکانی بھی جاری ہے۔سیلاب ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا، تباہی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

دریائے جہلم اور چناب کے ریلے تریموں کے مقام پر مزید غضب ناک ہو گئے۔ جھنگ شہر کو بچانے کیلئے اٹھارہ ہزاری بند کو مختلف مقامات سے توڑ دیا گیا ہے۔ شہر تو بچ گیا لیکن جھنگ کے مضافات میں 100 سے زیادہ دیہات پانی سے بھر گئے ہیں۔ سیلاب کا پانی قصبہ اٹھارہ ہزاری، گڑھ مہا راجہ اور کوٹ بہادر میں بھی داخل ہو گیا۔

(جاری ہے)

نوے ہزار ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں بھی سیلاب کی زد میں ہیں۔

جھنگ کا بھکر، لیہ، ملتان اور فیصل آباد سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔ پیر کوٹ اور مسن کے متاثرین بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ بالائی اور وسطی پنجاب میں تباہی کے بعد سیلابی ریلا اب جنوبی پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملتان کے نواح میں درجنوں آبادیاں پانی کی زد میں آ گئی ہیں۔ لوگوں کی نقل مکانی بھی جاری ہے۔ ملتان شہر کو بچانے کیلئے ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ بند کو توڑنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

گرے والا میں بھی بارود نصب کر دیا گیا ہے۔ ممکنہ سیلاب کے پیش نظر ملتان میں 80 سرکاری سکولوں کو دو روز کے لیے بند کرا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب سیالکوٹ، جہلم، گجرات، نارووال اور شیخوپورہ کے متاثرہ علاقے ابھی تک پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ کئی علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے سے متاثرین کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ نالہ ڈیک اور پلکھو نالے کا سیلابی پانی بھی نہیں نکالا جا سکا۔

دریائے راوی میں بھی بلھے شاہ کے مقام پر سیلابی صورتحال ہے۔ تاندلیانوالہ کے کئی علاقے ڈوب گئے ہیں۔ اوکاڑہ، ساہیوال، ہڑپہ اور چیچہ وطنی میں بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ دریا کے قریب واقع آبادیوں سے لوگوں کا انخلاء بھی جاری ہے۔ کمالیہ میں بھی درجنوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ پچیس سے زیادہ آبادیاں خالی کرا لی گئی ہیں۔

دریائے ستلج میں بھی طغیانی کے باعث کئی علاقوں میں ریڈ الرٹ ہے۔

انتظامیہ نے حفاظتی اقدامات بھی شروع کردیئے ہیں۔ متعلقہ محکموں کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق اس وقت دریائے چناب میں چنیوٹ پل پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ہیڈ تریموں پر بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی کے مقام پر بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے ۔پاکستان کے مختلف علاقوں اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شدید بارشوں اور سیلاب سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے چار سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ لاکھوں افراد سیلابی پانی سے متاثر ہوئے ہیں۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ تریموں بیراج کو جو خطرہ تھا وہ ٹل گیا ہے۔حکومتِ پنجاب کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے مطابق منگل کی رات تک صوبے کے مختلف علاقوں سے 179 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ تین سو سے زیادہ زخمی ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ہلاکتوں کی تعداد 64 رہی اور شمالی علاقے گلگت بلتستان میں 14 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

دریائے چناب میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا اس وقت صوبہ پنجاب کے وسطی علاقوں سے گزرتے ہوئے جنوبی علاقوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں اب تک 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے )نے4ستمبر سے شروع ہونے والے سیلاب میں اب تک کے نقصانات اور امدادی کاموں کے حوالے سے تازہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اب تک سیلاب کے نتیجے میں 257افراد ہلاک،461افراد زخمی جبکہ 11لاکھ 21ہزار 987افراد متاثر ہوئے ۔

رپورٹ کے مطابق سیلاب کے دوران اب آزاد کشمیر اور پنجاب میں 9515مکانات جزوی اور2881 مکانات مکمل تباہ ہوئے،6لاکھ 67ہزار 459ایکڑ رقبہ پر فصلیں تباہ 6995جانور بھی سیلاب کی نظرہوئے جبکہ6لاکھ 92ہزار 631کو ویکسینیٹ کیا گیا ،

این ڈی ایم کی طرف سے قائم کیے گئے ریلیف کیمپوں362ریلیف کیمپوں میں اس وقت بھی 8037افراد موجود ہیں۔این ڈی ایم اے نے آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چناب میں 6سے سات لاکھ کیوسک پانی کے ریلے کے کے ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ،خانیوال،لیہ،مظفر گڑھ میں فلڈ وارننگ جاری کرتے ہوئے انتظامیہ کو تمام ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق این ڈی ایم اے نے بدھ کے روز اپنی تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اب پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں سیلاب و حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور امدادی کاموں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق 4سے 7ستمبرتک ہونیوالی شدید بارشوں کے سلسلے میں آنیوالے سیلاب کیوجہ سے دریائے چناب، جہلم، منگلا ، تریموں اور رسول ہیڈ ورکس کے علاقوں کے علاوہ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بے حد نقصانات ہوئے۔

لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے این ڈی ایم اے تمام متعلقہ اداروں سے متواتر رابطے میں ہے اور اسی سلسلے میں چیئرمین این ڈی ایم اے میجر جنرل سعید علیم نے تریموں ہیڈ ورکس، چنیوٹ، جھنگ اور اٹھارہ ہزاری کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی طرف سے دریائے چناب کے علاقے میں ریسکو آپریشن اور امدادی کارروائیوں میں مصروف عمل پاک آرمی، ریسکو 1122 اور دوسرے اداروں سے رابطہ کیا گیااور پاک آرمی و صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کئے گئے 15ہیلی کاپٹروں اور 574 کشتیوں کی مدد سے اب تک127,633 افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا جا چکا ہے۔

اور این ڈی ایم اے کی طرف سے صوبائی حکومت کو ٹینٹ، کمبل، پلاسٹک میٹ ، کشتیاں، فلٹریشن پلانٹ اور دواؤں کی فراہمی کے علاوہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے میں مصروف عمل ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل محمد سعید علیم نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں۔

کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اپنے ایک بیان میں پنجاب میں سیلاب کی صورتحال اور امدادی کارروائیوں کے متعلق چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ دریائے چناب کے ساتھ بڑے حفاظتی پشتے مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9 لاکھ کیوسک کا بڑا سیلابی ریلا 12 ستمبر کو دریائے سندھ میں شامل ہو جائے گا جس کے بعد صورتحال میں بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ سکھر اور گدو بیراجوں میں 10 لاکھ کیوسک پانی کی گنجائش موجود ہے تاہم این ڈی ایم اے نے سندھ حکومت کو کہا ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں کے قریب بستیوں بالخصوص کچے کے علاقے سے آبادی کو خالی کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ میجر جنرل محمد سعید علیم نے کہا کہ گزشتہ سیلاب میں دریائے چناب میں 3 لاکھ کیوسک کا ریلا آیا تھا لیکن اس دفعہ یہ ریلا 9 لاکھ کیوسک تک پہنچا ہے اس لئے موجودہ صورتحال غیر معمولی ہے

متعلقہ عنوان :