کفن پہننے اور قبریں کھودنے والوں کو مذاکرات کی میز پر لانا بڑی کامیابی ہے ،سراج الحق ،80فیصد مسائل پر اتفاق رائے ہو چکا،ہم تینوں فریقوں کو ذلت اور رسوائی سے بچانے اور ایک باعزت حل کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ، فریقین کے درمیان جن مسائل پر اتفاق نہ ہوسکا ،ا ن کے حل کے لیے تجاویز پیش کروں گا ، امیر جماعت اسلامی کا جلسہ عام سے خطاب

پیر 8 ستمبر 2014 07:50

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8ستمبر۔2014ء)امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاہے کہ یہ جرگے کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے کفن پہننے اور قبریں کھودنے والوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھالیاہے ۔80فیصد مسائل پر اتفاق رائے ہو چکاہے ۔ ہم تینوں فریقوں کو ذلت اور رسوائی سے بچانے اور ایک باعزت حل کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ فریقین کے درمیان جن مسائل پر اتفاق نہ ہوسکا ،ا ن کے حل کے لیے تجاویز پیش کروں گا ۔

ہم چاہتے ہیں کہ فریقین آپس میں مل بیٹھ کر خود ہی مسائل کا حل نکا ل لیں ۔ بلوچستان کے عوام کو وہاں کے وسائل کا مالک کیوں نہیں سمجھا جارہا۔ بلوچستان کی سڑکیں آج بھی آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ لوگوں کے اندر ایک مایوسی اور ناامیدی ہے ۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہورہی ۔

(جاری ہے)

بلوچستان کے مسائل کا حل لاٹھی گولی اورآپریشن میں نہیں عوام کو ان کے غصب شدہ حقوق دے کر انہیں اقتدار میں حصہ دیناہوگا۔

پاکستان کی سا لمیت کو قوم پرستوں سے نہیں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ڈالر پرستوں سے خطرہ ہے ۔ ہمیں امریکہ ، اسرائیل سے کوئی گلہ نہیں دشمن کا کام دشمنی کرناہے ہمیں ان بے حس مسلم حکمرانوں سے گلہ ہے جنہوں نے فلسطین کی بجائے اسرائیل کا ساتھ دیاہے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں لبیک یا غزہ ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ریلی سے امیر جماعت اسلامی بلوچستان عبدالمتین اخونزادہ اور سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے بھی خطاب کیا۔

سراج الحق نے کہاکہ یہ جرگہ کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ فریقین کے درمیان ڈیڈلاک ختم کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے ہیں ۔ جن لوگوں نے قبریں کھودنا شروع کردیں تھیں اور پارلیمنٹ میں داخل ہو گئے تھے ان کو دوبارہ مذاکرات کی طرف لانا جان جوکھوں کا کام تھالیکن ہم نے دن رات ایک کر کے عمران خان نوازشریف ، شہبازشریف ،محمود خان اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن سمیت تمام رہنماؤں سے رابطہ کر کے پاکستان کو کھائی میں گرنے سے بچایا ۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے بہت سے مطالبات کی ہم حمایت کرتے ہیں ۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ہونی چاہیے یہاں الیکشن کے نام پر سلیکشن اورانتخابات کے نام پر تجارت ہوتی رہی ۔پیسے کے بل بوتے پر لوگ سینیٹ اور اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ موجودہ ملکی سیاست جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی ہے جس میں غریبوں کے لیے کچھ نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ مجھ سے سوال کیا گیا کہ چوہدری آپس میں لڑرہے ہیں میں نے کہاکہ چوہدری لڑتے ہیں تو انہیں لڑنے دیں یہ صبح لڑتے اور شام کو پھر ایک ہوتے ہیں لیکن کوئی غریب کی بات نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے زرداری سے ملاقات میں بھی یہی کہاہے کہ آج اگر قوم 1973 ء کے آئین کی وجہ سے ایک ہے تو اس کو بچانے کے لیے سب کو متحد ہونا پڑے گا۔ اگر ایک بار آئین ختم ہوگیا تو پھر قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور وہ کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو سکے گی ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ملک میں حقیقی معنوں میں آئین و جمہوریت کی حکمرانی قائم کرے یہاں وزیر بننے والا سمجھتاہے کہ میں اب مغل بادشاہ بن گیاہوں مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ سراج الحق نے کہاکہ بلوچستان میں انتشار غربت ، بے روزگاری بلوچستان کے عوام سے حکمرانوں کے امتیازی سلوک کی وجہ سے ہے ۔ بلوچستان کی حالت بدلنے کے لیے مارشل لاء جمہوری اور قوم پرست حکومتوں نے کچھ نہیں کیا۔

بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیاہے یہاں سونے اور کوئلے کے ذخائر ہیں ۔گوادر پورٹ ، ریکوڈک اور سینڈک جیسے بڑے منصوبوں کے باوجود یہاں کے عوام کی حالت نہیں بدلی ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن انہیں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

انہوں نے کہاکہ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہ بنایا گیا تو اس انتشار پر قابو پانا مشکل ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے چالیس سے زیادہ صحافی شہید کر دیئے گئے ہیں لیکن ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ انہوں نے کہاکہ عوام اگر پاکستان اوربلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں اسلامی نظام کے لیے اٹھنا ہوگا۔دوسرا کوئی نظام ملک و ملت کو ترقی اور خوشحالی نہیں دے سکتا۔