پا ک فوج ،نواز شریف کی توانائی پالیسی کی حامی ہے،برطانوی جریدہ ، سر کا ری ٹی وی پر یلغار کرنے والے طاہر القادری اور عمران خان کے حامی تھے۔حکومت، مظاہرین اور فوج کے درمیان ایک ناخوشگوار موقف نے پاکستان پر کنٹرول کوپہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا ہے’ اکنامسٹ

ہفتہ 6 ستمبر 2014 08:55

لند ن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6ستمبر۔2014ء) برطانوی جریدہ” اکنامسٹ نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاک فوج،وزیر اعظم نواز شریف کی توانائی پالیسی کی حامی ہے۔پی ٹی وی پرحملہ حالیہ کشیدگی میں اضافے کیلئے کیا گیا کہ فوج مداخلت کرکے نواز شریف کو بے دخل کرے۔ فوجی جرنیل نوا زشریف کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

۔جریدہ لکھتا ہے کہ پی ٹی وی پر یلغار کرنے والے طاہر القادری اور عمران خان کے حامی تھے۔عمرا ن خان نے نواز شریف کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی فتح کو لوٹ لیا گیا لیکن آزاد انتخابی مبصرین ان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔قادری کے چاروں طرف فوج کی تعریف میں بینرز آویزاں ہیں۔۔حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے مسئلے پر بھی فوج ناراض ہے،۔

(جاری ہے)

۔ وزیر اعظم کے معاونین کہتے ہیں کہ فوج خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی کے پورٹ فولیو لینے کا ارادہ کرچکی اور نواز شریف اس پر اپنے اختیارات سونپ چکے۔جریدہ لکھتا ہے کہ یہ وزیر اعظم کی طاقت کی خلاف ورزی ہے۔لیکن یہ بالکل ایک بغاوت نہیں ہے۔ مظاہرین کی طرف سے فوج کی مداخلت کی کوششیں کام نہیں آئیں۔ یہ اشارے بھی سامنے آئے کہ جرنیل اس حقیقت کو تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ فوجی بغاوت خود فوج کے لئے اچھی نہیں ہوگی۔

مشرف کے جانے کے بعد فوج سیاست کا کنٹرول لینے سے گریز کرتی رہی۔

یہ بھی فکر مندی ہے کہ فوجی بغاوت سے امریکی مالی امدا دخطرے میں پڑ جائے گی۔اسلام ااباد کی گلیوں میں اس وقت بحران کی طوالت سے بہت کم دلچسپی ہے جب فوج وزیرستان میں طالبان کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔فوج نواز شریف کی کچھ پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے خاص کر توانائی کی امپورٹ میں۔

فوجی جرنیل نوا زشریف کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔حالیہ احتجاجوں کو اکسانے میں اگر فوج کا کوئی کردار بھی ہے تو اس کے بارے ابھی بے یقینی ہے۔ امریکی سیکورٹی تجزیہ کمپنی کے کامران بخاری کہتے ہیں پاکستان میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی بڑی تعداد ہے جو فوج کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈروں کی حقیقی طاقت سے کوسوں دور ہیں،کوئی اسکرپٹ نہیں ہے۔

اب بھی کچھ سیاستدان ہیں جو سیاست میں فوج کا کردار چاہتے ہیں۔ لیکن جو سیاسی طاقتیں فوج کی مداخلت کی مخالفت کرتی ہیں وہ حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئیں۔فوج پاکستان میں اب تک مضبوط ترین ادار ہ ہے لیکن سیاسی طاقتیں پندرہ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ حکومت، مظاہرین اور فوج کے درمیان ایک ناخوشگوار موقف نے پاکستان پر کنٹرول کوپہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

فوجی بغاوتوں کے شکار پاکستان میں سرکاری ٹی وی پر کنٹرول ہمیشہ فوجی آمریتوں کے نکتہ آغاز کے طور پراستعمال ہوتا رہا۔اسلام آباد کے مرکز میں پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر وہ پہلی عمارت تھی جب 1999میں جنرل مشرف نے نواز شریف کو معزول کرنے کیلئے قبضہ کیا۔یکم ستمبر کو فوج نے ماضی کی مثال دہرا دی ،تاہم اس بار فوج احتجاجیوں کو ہٹانے کے لئے ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئی جنہوں نے زبردستی نشریات کو بند کرادیا تھا۔

نواز شریف کی دوبارہ اقتدار میں واپسی سے امیدپیدا ہوئی تھی کہ فوج کی مداخلت ختم ہو جائے گی ،لیکن جرنیل اب بھی ان کے گرد ہیں۔ وسط اگست سے دونوں رہنماوٴں نے حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔دونوں کا ہجوم پاکستانی معیار کے لحاظ سے بہت معمولی رہا۔موسیقی اور تقاریر میں مظاہرین کی تعداد 50ہزار تک توپہنچی ، پھر موجود کشیدگی سے مظاہرین کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی۔

28اگست کو فوج امپائر کے طور پر سامنے آئی۔ عمران اور قادری کو نصف شب آرمی چیف سے ملاقات کے لئے مدعو کیاگیا جنرل راحیل شریف کو ان کے اور حکومت کے درمیان ثالث کی پیش کش کی گئی۔30اگست کو مظاہرین ایوان وزیر اعظم پر چڑھ دوڑے اور پولیس سے جھڑپیں کیں۔ اگلے ہی دن فوج نے حکومت سے کہا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔جب فوجی اہلکاروں سے کہا گیا کہ وہ مظاہرین کو پی ٹی وی کے کیمرے توڑنے سے روکیں اور عمارت خالی کرائے۔ تو دو سو ڈنڈا بردار فسادیوں نے تیزی سے عمل کیا۔