عوامی تحریک اور حکومت میں فوج کی ثالثی کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات بھی ناکام ،24 گھنٹے کی مہلت دی لیکن نواز،شہباز مستعفی ہوئے نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر ہماری شرائط کے مطابق درج ہوئی، مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں، اب فیصلہ عوامی جرگہ کریگا،، ملک میں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا مک مکا چلایا جارہاہے، طاہر القادری

ہفتہ 30 اگست 2014 07:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30اگست۔2014ء)پاکستان عوامی تحریک اور حکومت میں فوج کی ثالثی کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات بھی پہلے دور میں ناکام ہوگئے،طاہر القادری کہتے ہیں24 گھنٹے کی مہلت دی لیکن نواز،شہباز مستعفی ہوئے نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر ہماری شرائط کے مطابق درج ہوئی اس لئے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں، اب فیصلہ عوامی جرگہ کریگا،نوازشریف جھوٹے ترین شخص ہیں، نام نہاد وزیراعظم کو نہیں مانتے ، ملک میں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا مک مکا چلایا جارہاہے جسے ختم کرکے دم لینگے، حقیقی جمہوریت ہم لائینگے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے نماز مغرب کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے آج کے دن تین مطالبات رکھے تھے کہ ایف آئی آر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہماری شرائط کے مطابق درج کی جائے، میاں نوازشریف استعفیٰ دیں اور شہبازشریف استعفیٰ دیں لیکن ایسا نہیں کیاگیا اب ہماری 24 گھٹنے کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی ہے اب کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد فیصلہ کرینگے ۔

(جاری ہے)

قبل ازیں اپنے خطاب میں انہوں نے مزید بتایاکہ حکومت کے ساتھ مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر رحیق عباسی، خرم نواز گنڈا پور، سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجا ناصر عباس ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں یہ سہ فریقی میٹنگ تھی ہم نے اس میٹنگ کو ختم کرنے کا کہہ دیا ہے کیونکہ اس میٹنگ و مذاکرات میں سے کچھ نہیں نکلا ۔

انہوں نے کہا کہ میٹنگ کے ایک فریق نے پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بولا ہے کیونکہ خود انہوں نے ہی پاک فوج سے ثالثی کا مطالبہ کیا لیکن پارلیمنٹ ہاؤس میں اسمبلی اجلاس میں غلط بیانی سے کام لیا اور یکسر انکار کرتے ہوئے حکومت نے موقف اختیار کیا کہ ثالثی کی درخواست حکومت نہیں بلکہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف نے کی تھی جوکہ سفید جھوٹ تھا ۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہاکہ اس معاملے پر حکومت نے اپنی جماعت، وفاقی کابینہ اور اپوزیشن کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا جس قائد حزب اختلاف نے رات دن ان کے گن گائے اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری کا ثبوت دیا ہے اور خورشید شاہ نے وفاداری کی حد کردی انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا اور پھر اس کے بعد جعلی وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں جھوٹا بیان دے ڈالا جسے ہم نے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاکہ حکومت پارلیمنٹ کے فلور پر دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہے جس کے بعد سیاسی جماعتیں گومگوں کا شکار ہوگئیں کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاحت آنی چاہیے جس پر آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان دیاگیا کہ درخواست خود حکومت نے دی تھی اور پاک فوج کے بیان نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا اور وفاقی حکومت کی عیاری و مکاری عیاں ہوگئی۔

انہوں نے کہاکہ کیا ابھی بھی اخلاقی اعتبار سے اسے وزیراعظم کا حق رہنے کا اختیار ہے اسے مستعفی ہوجانا چاہیے کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا اور آئی ایس پی آر نے حکمرانوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کردیاہے ۔

انہوں نے کہاکہ اب پارلیمنٹ کا کام ہے اراکین بتائیں کہ کیا کھلا جھوٹ بولنے کی اجازت ہے؟ اب جمہوریت کے چمپئن کیوں خاموش ہیں کیوں اس کی ملامت نہیں کرتے، ان کا مواخذہ نہیں کرتے؟ لیکن اخلاقی جرات نہیں اگر ایسا ہوتا تو ایف آئی آر درج کرلی جاتی اور سوا دو ماہ ایف آئی آر میں نہ لگتے اور جو ایف آئی آر درج کی گئی وہ بھی ایسی بنائی گئی تاکہ مجرموں کو سزائیں ہی نہ مل سکیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں جمہوریت کا بابا آدم نرالا ہے،جہاں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا دور چلایا جاتاہے، گزشتہ پانچ سال جمہوریت کے نام پر مک مکا ہوا اس ملک میں حقیقی جمہوریت ہم لائینگے۔انہوں نے اپنی تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ نیوزلینڈ کے سابق وزیراعظم نے بتایا کہ نیوز ی لینڈ میں سرکاری سٹیل ملز میں 50فیصد شیئر شریف فیملی کے ہیں جبکہ آسٹریلیا کے بوب ہاک کے میرے سامنے انکشاف کیا کہ سابق صدر زرداری نے پاکستان میں آنیوالی سرمایہ کاری پر آنیوالے پیسے پر 30فیصد کمیشن مانگا اور کہاکہ آپ کے ملک کو آپ کے اپنے لیڈر کھاگئے ہیں ۔

قبل ازیں پاکستان عوامی تحریک اور وفاقی حکومت میں مذاکرات کنونشن سینٹر میں ہوئے حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ، وزیراطلاعات پرویز رشید نے شرکت کی جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر رحیق عباسی، خرم نواز گنڈا پور، سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجا ناصر عباس ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی کے ساتھ مذاکرات کئے۔

مذاکرات میں پی اے ٹی کے تین مطالبات،وزیراعظم کا استعفیٰ، وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر ان کی شرائط کے مطابق درج کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ مذاکرات ابھی جاری تھے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ٹیلیفون کے ذریعے پیش رفت نہ ہونے پر اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس آنے کا پیغام بھجوایا دیا بعدازاں انہوں نے دھرنا سے خطاب میں کہاکہ مذاکرات سہ فریقی تھے جس میں حکومت اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ ساتھ فوج کے نمائندے بھی شامل تھے ۔