مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا وزیراعظم کو کسی بھی دباؤ میں استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ،وزیر اعظم کا استعفیٰ پارلیمنٹ کی توہین ہوگی ، اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ کے غیرجمہوری مطالبہ کی کبھی حمایت نہیں کریں گی، خورشید شاہ ، ہم چاہتے ہیں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ڈاکٹرفاروق ستار

جمعرات 28 اگست 2014 08:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اگست۔2014ء) مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے وزیراعظم محمد نوازشریف کو کسی بھی دباؤ میں استعفی نہ دینے کا مشورہ دے دیا اور کہا ہے کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ پارلیمنٹ کی توہین ہوگی ، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کاکہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ کے غیرجمہوری مطالبہ کی کبھی حمایت نہیں کریں گے، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹرفاروق ستار کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔

تفصیلات کے مطابق پارلیمانی لیڈروں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم محمد نوازشریف سے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم چیمبر میں ملاقات کی اور دونوں جماعتوں سے جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

(جاری ہے)

ملاقات کرنے والوں میں سید خورشید شاہ، محمود اچکزئی، غلام احمد بلور،فضل الرحمان، آفتاب شیرپاؤ،ڈاکٹر فاروق ستار، حیدرعباس رضوی، سید نوید قمر،سردار ثناء اللہ زہری اور وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، عبدالقادر بلوچ اور دیگر رہنماء شریک ہوئے۔

ذرائع کے مطابق پارلیمانی لیڈر وں کو دونوں جماعتوں سے مذاکرات کے بارے اعتماد میں لیا گیا اور بتایا گیا کہ تحریک انصاف اعر عوامی تحریک وزیراعظم کے استعفی سے کم پر راضی ہونے کو تیار نہیں۔ پارلیمانی لیڈروں نے کہا کہ وزیراعظم کا استعفی پارلیمانی قراردادوں کی توہین ہوگی، وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ صرف آئینی مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔

اپوزیشن جماعتیں بھی اس کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔ ملاقات کے بعد خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ کوشش کی جائے کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سے براہ راست بات کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔وزیراعظم کو عدم اعتماد سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے،اگر آج دباؤ سے وزیراعظم سے استعفی لیا جائے گا تو پھر کل کیا ہوگا۔

تحریک انصاف سے مائنس وزیراعظم کے علاوہ دیگر مطالبات پر بات ہو سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انتخابی دھاندلی کے معاملہ پر سپریم کورٹ کا پانچ رکنی کمیشن بن رہا ہے۔ اگر انتخابی دھاندلی ثابت ہوجائے تو پھر پوری پارلیمنٹ جانی چاہیے اور دوبارہ انتخابات ہونے چاہئیں، اس سے پہلے ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر اعظم ہاؤس میں وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ایم کیو ایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی ، فاروق ستار، باہر غوری اور حیدر عباس رضوی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے دینے والوں کو کسی بھی صورت منایا جائے، وزیر اعظم یہ نہ دیکھیں کہ اس سے کیا روایت قائم ہوگی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کوشش کی ہے کہ اس وقت ملک جس بحران میں ہے اس کا حل نکالا جائے۔

وہ احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت سے مسلسل اپیل کررہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں، اسی غرض سے ہم نے پاکستان عوامی تحریک، چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشیداحمد، جاوید ہاشمی، مولانا فضل الرحمان ، خورشید شاہ اور وفاقی وزرا سے ملاقات کی۔

وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ہم نے انہیں ان تمام رہنماوٴں سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا اور وزیراعظم نے بھی ہماری باتوں کو کھلے دل سے سنا، انہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اب بھی گنجائش ہے اور تھوڑی کوشش کی جائے تو مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے، حکومت بڑی فریق ہے اور اسے بڑے دل کا مظاہرہ کرناہوگا، ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، آج کا دن انتہائی اہم ہے، انا کو ایک جانب رکھ کر دھرنے دینے والوں کو کسی بھی صورت منایا جائے۔ ہم نے کہا ہے کہ حکومت ایسی پیشکش سامنیرکھے کہ احتجاج کرنے والوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔

پی ٹی آئی سے مذاکرات ہوئے ہیں اور عوامی تحریک سے بھی ہونے چاہئیں، اگر حکومت کا اعلیٰ سطح کا وفد ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرے تو اس بات کی گنجائش ہے کہ معاملات درست سمت میں گامزن ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ اس وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔

مطالبوں کی نوعیت اور اس کے طریقہ کار پر بات کرنا ایک الگ بحث ہے لیکن ہمیں ملک کے وسیع تر مفاد اور اس کے استحکام کے لئے سوچنا چاہیئے۔ انتہاپسندی اور دہشتگردی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب بھی کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔