تحریک طالبان پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار، نئی تنطیم قائم قاسم خراسانی امیر مقرر ،مہمند ایجنسی کے علاوہ کئی دیگر علاقوں کے گروپوں کا نئے گروپ میں شمولیت کا بھی اعلان

بدھ 27 اگست 2014 02:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اگست۔2014ء ) تحریک طالبان پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار، جماعت الاحرار‘ نامی ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق تحریک طالبان پاکستان، مہمند کی جانب سے ایک ویڈیو میں اس نئے گروپ کے قیام اور قاسم خراسانی کی بطور امیر تعیناتی کا اعلان کیا گیا ہے۔قبائلی علاقے مہمند کے علاوہ کئی دیگر علاقوں کے گروپوں نے اس میں شمولیت کا بھی اعلان کیا ہے۔

قبائلی علاقوں میں کسی نامعلوم مقام پر تیار کی گئی اس ویڈیو میں غیرقانونی تحریک طالبان، مہند کے علاوہ چارسدہ، باجوڑ اور اورکزئی ایجنسی کے شدت پسند رہنما موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کے دسمبر 2007 میں قیام کے بعد سے تنظیم میں اتحاد و اتفاق کی مسلسل کوششیں ہوئی لیکن بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔

(جاری ہے)

اس سے ان کی جدوجہد کا اصل مقصد پس پشت چلا گیا۔

مہند شاخ کے امیر خالد خراسانی اپنے بیان میں واضح کرتے ہیں کہ وہ تحریک طالبان کے اندر رہتے ہوئے اس نئے گروپ کے ساتھ الحاق کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان کے سابق مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کو اس گروپ کا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔یہ ویڈیو کس علاقے میں اور کب بنائی گئی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن آغاز میں یہ شدت پسند رہنما چار گاڑیوں اور کئی موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر آتے ہیں اور ایک شخص کلاشنکوف سے گولیاں چلا کر ان کا استقبال کرتا ہے۔

کسی پریس کانفرنس کے انداز میں ایک میز کے پیچھے بیٹھے شدت پسند باری باری اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہیں۔اپنے تفصیلی وضاحتی بیان میں خالد خراسانی اعتراف کرتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے دسمبر 2007 میں قیام کے بعد سے تنظیم میں اتحاد و اتفاق کی مسلسل کوششیں ہوئی لیکن بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ اس سے ان کی جدوجہد کا اصل مقصد پس پشت چلا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ کسی کو کسی علاقے کا امیر مقرر کر دیا جاتا تو وہ بادشاہ بن جاتا اور اسے ہٹانا مشکل ہو جاتا تھا۔ شاہ کی یہ وہی تشبہہ ہے جو اکثر قبائلی علاقوں میں حکومت کے تعینات کردہ پولیٹکل ایجنٹس کے لیے بھی نالاں لوگ استعمال کرتے آئے ہیں۔خالد کا کہنا تھا کہ تنظیم کے اندر اسی انتشار کی وجہ سے محسود قبیلے اور کرم ایجنسی کے اراکین تنظیم سے علیحدہ ہوگئے۔

اس نئے گروپ کا مقصد اس مزید تقسیم، مایوسی اور انتشار کو مستقبل میں روکنا ہے۔ انھوں نے اس میں افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر کی تقلید کی مثال تو دی لیکن اپنی تحریک کے سربراہ مولانا فضل اللہ کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا۔"اب یہ نئی تنظیم ہم خود چلائیں گے۔ اپنے مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ تحریک طالبان پاکستان چند افراد کے ہاتھوں میں یرغمال ہے اور چونکہ ہم ان کے ساتھ اس نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتے تو آئیں ایسا کرتے ہیں کہ ہم اس تحریک کا اعلان کرتے ہیں،اس موقع پر اپنی تقریر میں ’احرار الہند‘ کے رہنما قاسم خراسانی نے کہا کہ انھوں نے تحریک اس لیے نہیں بنائی تھی کہ اسے چند لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں جو اپنی کمانڈر کی کرسی مضبوط کریں اور مزے کریں۔

’اب یہ نئی تنظیم ہم خود چلائیں گے۔

اپنے مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ تحریک طالبان پاکستان چند افراد کے ہاتھوں میں یرغمال ہے اور چونکہ ہم ان کے ساتھ اس نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتے تو آئیں ایسا کرتے ہیں کہ ہم اس تحریک کا اعلان کرتے ہیں‘۔خالد خراسانی کے بیان کے مطابق وہ تحریک طالبان کا حصہ ہوتے ہوئے اس نئے گروپ میں شامل ہوئے ہیں لیکن قاسم خراسانی کے بیان سے لگتا ہے کہ یہ ایک الگ نیا گروپ ہے۔

مہمند ٹی ٹی پی کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے قاری شکیل، اورکزئی سے مولانا حیدر منصور اور باجوڑ کے مولانا عبداللہ نے اس موقع پر نئے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے۔احرار الہند کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ اس گروپ نے اسلام آباد میں کچہری پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اب یہ بظاہر تحریک طالبان کے اندر ناراض یا مایوس افراد کو اکھٹا کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔