سیاسی بحران میں کوئی کردار تین ماہ قبل ادا ہوسکتا تھا اب حکومت مطالبات تسلیم کرلے تو ٹھیک ہے، دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی تو ذمہ دار حکومت ہوگی،چوہدری شجاعت، اللہ کی شان دیکھیں کہ شہباز شریف چند برس قبل آصف علی زرداری کی گردن میں رسی ڈال کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے اب وہ ان کی منتیں کررہے ہیں نواز شریف کی حیثیت اب وزیراعظم سے ہٹ کر میئر اسلام آباد کی سی رہ گئی ہے جس میں ڈی چوک ان کی عملداری سے باہر ہے،مشاہد حسین کی میڈیا سے گفتگو

بدھ 27 اگست 2014 02:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اگست۔2014ء)پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ اور وزیراعظم کے درمیان پہلے بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں یہ معمول کی بات ہے۔ موجودہ سیاسی بحران میں کوئی کردار تین ماہ قبل ادا ہوسکتا تھا اب حکومت مطالبات تسلیم کرلے تو ٹھیک ہے۔ دھرنے میں شامل جماعتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔

موجودہ صورتحال میں امریکی مداخلت نظر نہیں آرہی جبکہ سینٹ کی دفاع و دفاعی پیداوار کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ اللہ کی شان دیکھیں کہ شہباز شریف چند برس قبل آصف علی زرداری کی گردن میں رسی ڈال کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے اب وہ ان کی منتیں کررہے ہیں نواز شریف کی حیثیت اب وزیراعظم سے ہٹ کر میئر اسلام آباد کی سی رہ گئی ہے جس میں ڈی چوک ان کی عملداری سے باہر ہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ڈی چوک میں دھرنے دینے والوں دھاوا بولنے کی کوشش کی تو اس کی تمامتر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی‘

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو اعتماد میں لیتے ہوئے چیئرمین سینٹ قائمہ کمیٹی برائے دفاع سینیٹر مشاہد حسین سید نے مطلع کیا کہ کمیٹی اراکین نے اپنے اجلاس میں مسلح افواج کے جرنیلوں اور اعلی افسران کی تنخواہوں و دیگر مراعات کو کم کرکے عام سپاہیوں اور فوجیوں کی حالت زار میں بہتری لانے کے حوالے سے مشاورت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں عام سپاہیوں اور فوجیوں کی بہتری اور حالت بہتر بنانے کے حوالے سے چوہدری شجاعت حسین نے تجویز پیش کی جس کی خاصی پذیرائی کی گئی ہے۔ مشاہد حسین سید نے بتایا کہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلح افواج پاکستان کے دفاعی بجٹ پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اجلاس میں نئے سیکرٹری وزارت دفاع عالم خٹک نے بھی شرکت کی اور تمام معلومات پر تفصیلی بحث کی گئی۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کمیٹی خاکی اور مفتی‘ سول اور ملٹری کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کررہی ہے۔ اراکین کمیٹی نے ملک کی مسلح افواج کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو نہ صرف مسلح افواج بلکہ حکومت وقت کو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ حکومت کی غلطیوں کے باعث بحران پیدا ہوا اور غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کے باعث سنگین ہوا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی 12 اگست کی تقریر میں بھی 14 افراد جوکہ شہید ہوئے ان کا ذکر نہیں کیا اور بحران تو 14 افراد کی شہادت کے بعد ہی سنگین ہوا تھا تاہم انہوں نے زور دیا کہ مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ سنجیدگی سے مذاکرات کرکے مسئلے کے حل کی جانب پیش قدمی کرے۔ ایک سوال کے جواب میں مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ اللہ کی شان دیکھیں کہ شہباز شریف چند برس قبل اس وقت کی صدر آصف علی زرداری کی گردن میں رسی ڈال کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے تاہم اب وہ آصف زرداری کی منتیں کررہے ہیں کہ مسئلہ حل کروائیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے راہنماء نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی حیثیت اب وزیراعظم سے ہٹ کر میئر اسلام آباد کی سی رہ گئی ہے جس میں ڈی چوک ان کی عملداری سے باہر ہے۔ مئی 1977ء میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں میں غلام مصطفی کھر کو متعارف کروایا گیا جس کے نتائج اچھے نہیں نکلے اور اب مسلم لیگ (ن) بھی جلسے اور ریلیاں نکال رہی ہے۔

جلسے جلوسوں اور ریلیوں سے صرف تکرار اور تصادم ہوگا اور خون خرابے کا خدشہ ہے۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کے سربراہ اور وزیراعظم کے درمیان پہلے بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں یہ معمول کی بات ہے۔ موجودہ سیاسی بحران میں دیگر جماعتوں اور مفاہمتی قوتوں کی جانب سے کوئی کردار تین ماہ قبل ادا ہوسکتا تھا اب حکومت اگر مطالبات تسلیم ٹھیک کرلے تو ٹھیک ہے۔

اگر آج دھرنے میں شامل جماعتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفیر کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت نظر نہیں آرہی نہ ہی امریکی سفیر نے ان سے کوئی ایسی بات کی تھی۔ کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مشاہد حسین نے کہا کہ ملک کا دفاعی بجٹ 16 فیصد جبکہ مجموعی بجٹ 4.3 کھرب ہے جس میں سے 700 ارب روپے مسلح افواج کا بجٹ ہے جوکہ 16 فیصد بنتا ہے تاہم علاقائی صورتحال کے تناظر اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاع بجٹ مناسب ہے زیادہ نہیں۔

مسلح افواج کے حکام و افسران‘ پارلیمان اور متعلقہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں پیش ہوتے ہیں جوکہ ایک اچھی بات ہے اور پارلیمان کو بھی ہر حال سے انہیں راہنمائی فراہم کرنی چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں مشاہد حسین سید نے بتایا کہ پہلے وزیراعظم حزب اختلاف‘ پارلیمان اور کسی کو اہمیت نہیں دیتے تھے تاہم اب وہ سب سے ملاقاتیں کررہے ہیں‘ پہلے ہی مسئلے کے حل پر توجہ دیتے تو حالات بہتر ہوتے۔