ای سی سی نے پی آئی اے کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے ایک ارب روپے ضمانت ،ایرانی توانائی کمپنی سے توانائی کے حصول کے منصوبے اور ٹرانسمیشن لائنوں کے منصوبہ جات میں نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی منظوری دیدی، ایران سے معاہدے پر عالمی پابندیاں اثرانداز نہ ہونگی، آنے والے برسوں میں ایران سے 1000 میگا واٹ بجلی کی درآمد کا ارادہ ہے،خواجہ آصف،وزیرخزانہ کی ایرانی کمپنی کو سابقہ بقایا جات کی ادئیگیاں تیز کرنے اور واجب الاداء رقوم کو گندم اور چاول کے تبادلے سے پورا کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت

بدھ 27 اگست 2014 02:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اگست۔2014ء ) کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پی آئی اے کیلئے جہازوں کے انجن اور دیگر پرزہ جات کی خریداری کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے ایک ارب روپے ضمانت ،ایرانی توانائی کمپنی ”توانیر“ سے طے شدہ ٹیرف پر توانائی کے حصول کے منصوبے اور ٹرانسمیشن لائنوں کے منصوبہ جات میں نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی بھی منظوری دیدی ہے اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ایران سے معاہدے پر اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کے خلاف لگنے والی پابندیوں کو کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وزارت پانی و بجلی آنے والے برسوں میں ایران سے 1000 میگا واٹ بجلی کی درآمد کا ارادہ رکھتی ہے۔

وزیرخزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ متعلقہ وزارتیں ایرانی ہم پلہ وزارتوں سے بات چیت کر کے ایرانی کمپنی کو سابقہ بقایا جات کی ادئیگیاں تیز کریں اور اس حوالے سے واجب الاداء رقوم کو گندم اور چاول کے تبادلے سے پورا کرنے کی کوشش کریں۔

(جاری ہے)

منگل کے روز وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت پی بلاک آڈیٹوریم منعقد ہوا جس میں ای سی سی نے نجی بنک کی جانب سے قومی ائیر لائن(پی آئی اے ) کو ایک ارب روپے قرضہ کی حکومت پاکستان کی جانب سے ضمانت کی فراہمی کی منظوری دی گئی ۔

اس موقع پر سیکر یٹری ایوی ایشن ڈویژن محمد علی گردیزی نے اجلاس کے شرکا ء کوگذشتہ ایک برس میں سرکاری اداروں کی صورتحال اور کارکردگی میں بہتری لانے کے حوالے سے کئے گئے مالی اقدامات کے حوالے سے بھی اعتماد میں لیا، انہوں نے بتایا کہ مذ کورہ رقم کو پی آئی اے کے ذمہ واجب الاداء رقوم کی ادائیگی اورجاری حج آپریشن کو متوازن رکھنے کے لئے استعمال کی جائے گی،اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے قومی ائیر لائنز کی جانب سے مالی کارکردگی بہتر بنانے اور اپنے صارفین کو معیاری و بہتر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انکا کہنا تھا کہ اپنی حالت کو دوبارہ بہتر بنانے کے لئے پی آئی اے کو اپنی رقوم کے استعمال اور مالی انتظام کو بہتر نظم و ضبط کے تحت چلانا ہو گا۔اس موقع پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس فیصلہ کی منظوری دیتے ہوئے سیکر یٹری ایوی ایشن ڈویژن کو ہدایت کی کہ مذکورہ رقوم کو صرف جہازوں کے انجن اور دیگر پرزہ جات کی مرمت ، بحالی اور ایندھن کے مقاصد کے لئے ا ستعمال کیا جائے ۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت پانی و بجلی کی سمری پر این ٹی ڈی سی کو نیپرا سے رابطہ کر کہ ایرانی توانائی کمپنی ”توانیر“ سے طے شدہ ٹیرف پر توانائی کے حصول کے منصوبے کی بھی منظوری دے دی۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی 2002سے ایرانی کمپنی ”توانیر“ سے بجلی خرید کر بلوچستان کے مکران ڈویژن کو فراہم کر رہی ہے، دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کا اختتام 31 دسمبر 2013 کو ہوا تھا تاہم ایرانی کمپنی نے پاکستان کو اسی ٹیرف پر ایک اور برس دسمبر 2014 ء تک بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اس موقع پر اجلاس کے شرکاء کے استفسار پر وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے بتایا کہ اس معاہدے پر اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کے خلاف لگنے والی پابندیوں کو کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وزارت پانی و بجلی آنے والے برسوں میں ایران سے 1000 میگا واٹ بجلی کی درآمد کا ارادہ رکھتی ہے۔این ٹی ڈی سی کی درخواست پر منظوری دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے ہی ملک میں توانائی کی پیداوار میں اضافہ کے لئے ایک جامع منصوبہ پر کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں ایران سے بجلی کی درآمد کافی مددگار ثابت ہو گی۔

اسحاق ڈار نے متعلقہ وزارتوں پرزور دیا کہ وہ اپنی ایرانی ہم پلہ وزارتوں سے بات چیت کر کے ایرانی کمپنی”توانیر“ کو سابقہ بقایا جات کی ادئیگیاں تیز کریں اور اس حوالے سے واجب الاداء رقوم کو گندم اور چاول کے تبادلے سے پورا کرنے کی کوشش کریں۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ٹرانسمیشن لائنوں کے منصوبہ جات میں نجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی بھی منظوری دے دی۔

ای سی سی کے اراکین کو بتایا گیا کہ بڑے پیمانے پر بجلی کے پیداواری منصوبوں کے آغاز کے باعث اضافی ٹرانسمیشن نیٹ ورکس کی نہایت ضرورت ہے اور اس حوالے سے پبلک سیکٹر پر موجودہ دباؤ کو کم کرنے کے لئے نجی شعبہ کو نئی ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کے لئے سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔چیئر مین فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) طارق باجوہ نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ اس حوالے سے ڈرافٹ پالیسی کو ایف بی آر میں مشتہر نہیں کیا گیا اورایف بی آر اس کے خزانہ اور محاصل پر اثرات کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہے، اس ضمن میں حتمی طور پر کوئی بھی بات کرنے کے لئے ایف بی آر کو کچھ وقت دیا جائے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پرتمام متعلقہ شراکت داروں کی مشاورت نہیں ہو سکی لہذا اس معاملے کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں زیر غور لایا جائے گا تاہم اس دوران ایف بی آر اور لاء ڈویژن تفصیلی جائزہ مکمل کر لیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وفاقی وزیر پیٹرولیم وقدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی زاہد حامد، وفاقی وزیر تحفظ خوراک سکندر بوسن، وفاقی وزیر ٹیکسٹائل انڈسٹریز عباس خان آفریدی، وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان خان، گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان اشرف وتھراء ، چیئر مین نجکاری کمیشن محمد زبیر، چیئر مین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان طاہر محمود، وفاقی سیکریٹریوں اور دیگر متعلقہ اعلی حکام نے بھی شرکت کی۔