لانگ مارچ کے منفی اثرات تادیر پیچھا کریں گے‘ ماہرین،تعلیمی ادارے بند ہیں، سرکاری دفاتر اور وزارتوں میں کام ٹھپ ، سیکورٹی فورسز خاص کر پولیس کی اکثریت دھرنوں کی حفاظت پر مامور ، جرائم بڑھ رہے ہیں،’لانگ مارچ‘ کے منفی اثرات لمبے عرصے تک پاکستان کی معیشت کا پیچھا کرتے رہیں گے‘ مالی نقصان اگر پورا ہوا بھی تو اس میں کئی سال لگ جائیں گے، تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر کئی نقصانات ایسے ہیں جن کی شاہد کبھی تلافی نہ ہوسکے،امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ،لانگ مارچ کے باعث ملکی معیشت کو یومیہ 150 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے‘ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان

اتوار 24 اگست 2014 09:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24اگست۔2014ء)پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے لانگ مارچ کو شروع ہوئے 13 دن ہوگئے ہیں۔ گیارہ اگست کو لاہو ر سے پاکستان عوامی تحریک نے اس کی ابتدا کی تھی، جبکہ پی ٹی آئی کا احتجاجی مارچ 14اگست کولاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تھا۔ یوں، دونوں جماعتوں کے شرکاء 15تاریخ کو اسلام آباد پہنچے تھے۔

شرکا ء کو اسلام آباد آئے ہوئے بھی سات دن ہوگئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق، اگر یہی صورتحال مزید کچھ دن جاری رہی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ تعلیمی ادارے بند ہیں، سرکاری دفاتر اور وزارتوں میں کام ٹھپ ہے، سیکورٹی فورسز خاص کر پولیس کی اکثریت دھرنوں کی حفاظت پر مامور ہے جس سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماہرین کے بقول ’لانگ مارچ‘ کے منفی اثرات لمبے عرصے تک پاکستان کی معیشت کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ مالی نقصان اگر پورا ہوا بھی تو اس میں کئی سال لگ جائیں گے، جبکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر کئی نقصانات ایسے ہیں جن کی شاہد کبھی تلافی نہ ہوسکے۔ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیرکے مطابق لانگ مارچ کے باعث ملکی معیشت کو یومیہ 150 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

اس طرح بارہ دنوں میں اس مارچ سے ملکی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا جبکہ دھرنا تاحال جاری ہے اور نہیں معلوم کہ مزید کتنے دن جاری رہے گا۔ایک اور ماہر معاشیات عرفان قیصر شیخ کا کہنا ہے کہ’دھرنوں ،جلوسوں اور غیر یقینی کی فضا سے معاشی حلقوں کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔‘سب سے بڑا نقصان طالبہ کا ہورہا ہے۔ دارالحکومت کے تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں تیسری مرتبہ توسیع کے بعد ان کے ستمبر میں کھلنے کے امکانات ہیں۔

ادھر یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو دھرنے کے سبب روزگار کا مسئلہ آڑے آ رہا ہے۔ زیادہ تر افراد علاقہ بند ہونے کے سبب روزگار حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہو چکے ہیں۔دو غیر ملکی سربراہ مملکت اور ورلڈ بینک کے وفد نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گذشتہ روز اس بات کی تصدیق کی کہ غیر ملکی سربراہان پاکستان آنے سے انکاری ہیں۔

ادھر فیڈریشن آف پاکستان ۱یمبر آف کامرس کے صدر ذکریا عثمان، نائب صدر سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری افتخار علی ملک اور ملک کی تاجر برادری نے مارچ کو ملکی معیشت کے لئے خطرات قراردیا ہے۔ایک ہفتے سے بھی زیادہ مدت تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنوں کے سبب روپے کی قدر میں ایک ہفتے کے دوران دو روپے سے بھی زیادہ کی کمی ہوچکی ہے۔ اس کے اثرات بھی دیر تک ملکی معیشت پر چھائے رہیں گے۔

دھرنے کے انسانی صحت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق دھرنے میں شامل 50 افراد کو پمز لایا گیا تھا جن میں سے10 افراد کا تعلق تحریک انصاف سے تھا، جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال کی ایمرجنسی سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ باقی افراد پولیس اہلکار تھے، جنہیں گردن میں درد کے ساتھ ساتھ بخار اور پیٹ کی تکلیف تھی۔

کچھ دیگر افراد کو موسم کی سختی نے بھی بیمار کرڈالا۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل شرکا گیسٹرو' پیٹ کی بیماریوں اور پانی کی کمی کا شکار ہو کر بیمار ہوگئے۔

ابرارالحق کی تنظیم ’سہارا ٹرسٹ‘ نے ان مریضوں کو طبی امداد فراہم کی۔دھرنے کے تیسرے روز بارش کے بعد چلچلاتی دھوپ نکلی تو پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل کئی کارکن گیسٹرو 'اسہال' قے اور بلڈ پریشر کم ہونے سے بیمار ہوئے۔

طبی کیمپ سہارا فار لائف ٹرسٹ کی جانب سے لگائے گئے کیمپ میں ان کا اعلاج کیا گیا۔ کیمپ کے انچارج کے مطابق اس دن 400 مریضوں کو طبی امداد دی گئی۔ریڈ زون میں مارچ اور دھرنے کے سبب وزارتوں میں بھی کام ٹھپ پڑا ہے۔ وہاں پر سب سے زیادہ مشکلات وزرات مذہبی امور کو درپیش ہیں کیوں کہ حج سیزن سرپر ہے۔ لیکن، سعودی سفارتخانے کی طرف جانے والے راستے بند ہیں جس سے حج آپریشن میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

علاوہ ازیں ریڈ زون میں واقع تمام سرکاری دفاتر میں بھی کوئی کام کاج نہیں ہو رہا۔ڈی سی او، کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، محکمہ مال سمیت تمام سرکاری اداروں کے سربراہان گومگو کی کیفیت کاشکا ر ہیں، سرکاری محکموں کے سربراہان دفاتر آتے بھی ہیں تو کام نہیں کر پاتے۔ محکمہ پولیس، ضلع کچہری اور اطرافی مارکیٹس میں بھی کاروبار ختم ہوکر رہ گیا ہے۔