ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنوں کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا 12صفحات پر مشتمل تفصیلی جواب دائر کردیا ، یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی، عدالت سے استدعا ہے وہ اس درخواست کو مسترد کردیں،پاکستان عوامی تحریک کا موقف ،اگر عوام سمجھتے ہوں موجودہ حکومت غیر قانونی ہے کیونکہ مینڈیٹ چرایا گیا ہے، حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکتی ، دن رات لوٹ مار کا بازار گرم ہو ، کرپشن عام ہو ، نظام ناکام ہوچکا ہو تو پھر عوام کا حکومت سے کیا مطالبہ ہونا چاہیے ؟بیرسٹر سید علی ظفر کی طرف سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں اٹھائے گئے سوالات

اتوار 24 اگست 2014 09:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24اگست۔2014ء)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنوں کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا 12صفحات پر مشتمل تفصیلی جواب دائر کردیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس درخواست کو مسترد کردیں جبکہ عدالت سے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ اگر عوام یہ سمجھتے ہوں کہ موجودہ حکومت غیر قانونی ہے کیونکہ مینڈیٹ چرایا گیا ہے، حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکتی ، دن رات لوٹ مار کا بازار گرم ہو ، کرپشن عام ہو ، نظام ناکام ہوچکا ہو تو پھر عوام کا حکومت سے کیا مطالبہ ہونا چاہیے ؟ ۔

بیرسٹر سید علی ظفر کی طرف سے ہفتہ کو عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ مدعا علیہ انسانی حقوق ، اخلاقیات کی بالادستی ، قانون ، جمہوریت اور آئین کی حکمرانی ، غربت کے خاتمے ، سب کے لئے مفت تعلیم ، کرپشن کے خاتمے ، اداروں کے استحکام ، سب کے احتساب ، دہشتگردی کے خاتمے اور ملک کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتا ہے اور وہ آئین فاضل عدالت کے طے شدہ اصولوں کے مطابق کام کررہا ہے ۔

(جاری ہے)

جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرامن احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے اور یہی پسے ہوئے طبقے کیلئے واحد راستہ ہے حکومت پاکستان کی طرف سے دھرنے کو روکنا غیر جمہوری عمل ہے ۔ عوامی مظاہرے جمہوریت کا حصہ ہیں پاکستان عوامی تحریک اور ہزاروں مردو خواتین اپنے مطالبات کیلئے اسلام آباد میں جمع ہیں اور ان لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی کسی عمارت کو نقصان پہنچایا حتیٰ کے مظاہرین دھرنے کی جگہ کو صاف رکھنے کیلئے بھی کوشاں ہیں ملک بھر سے آئے ہوئے مظاہرین کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں ان کے پاس بھوک یا بارش سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ہے معمولی خوراک پانی اور ادویات پر انکا گزارا ہے مگر وہ انصاف کیلئے جدوجہد کررہے ہیں سنگین حالات میں بھی دھرنا پرامن ہے کسی کو نقل وحرکت سے نہیں روکا گیا ۔

عوام کو جو بھی مشکلات درپیش ہیں وہ حکومت کی وجہ سے ہیں جس نے اسلام آباد بھر میں کنٹینرز لگا رکھے ہیں جواب میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اکیلے نہیں اور نہ ہی یہ دھرنا ان کا انفرادی فعل ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری دراصل ہزاروں مردوخواتین کی آواز ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً عوام کی آواز کو پیش کررہے ہیں ۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ سیاسی تنازعہ دو فریقوں کے درمیان ہے جن میں ایک طرف ڈاکٹر محمد طاہر القادری دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سینکڑوں پاکستانی جبکہ دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادی ہیں یہ معاملہ خالصتاً سیاسی ہے قانونی معاملہ نہیں ۔

سپریم کورٹ سیاسی معاملے میں مداخلت نہ کرے اور نہ ہی وہ رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے ان مسائل کا حل مذاکرات ہیں اگر اس معاملے میں عدالت ملوث ہوئی تو اچھا نہیں ہوگا بلکہ زیادہ نقصان ہوگا ۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ مظاہرین کی طرف سے اٹھائے گئے سیاسی سوالوں کا جواب دے انہیں سکیورٹی فراہم کرے اور ان کے مطالبات سیاسی دانش ، مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے طے کرے اگر کوئی بھی حکومت مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہوگی ۔

حکومت کو خود یہ بوجھ اٹھانا چاہیے اور وہ عدالت پر یہ ذمہ داری نہیں ڈال سکتی ۔ سیاسی امور کے حل یا مظاہرین کو حکم دینا عدالتوں کا کام نہیں عدالتی مطالبات پر فیصلہ نہیں کرسکتیں اور نہ ہی وہ مطالبات کے حوالے سے حکومت کی معاونت کرسکتی ہیں پاکستان کی تاریخ اس قسم کے مظاہروں اور اجتماعات سے بھری ہوئی ہے جس میں تازہ ترین ججوں کی بحالی کی تحریک تھی جو 2007ء میں چلائی گئی تھی اس تحریک کے دوران مظاہرے ہوئے ، احتجاج کئے گئے ، دھرنے اور ریلیاں منعقد کی گئیں اور یہ کام سپریم کورٹ کے سامنے کیا گیا جبکہ اس موقع پر پرتشدد واقعات بھی ہوئے جن میں بہت سے لوگ زخمی اور کراچی میں کئی جانیں گئیں خود سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی عدالتو ں کے سامنے اس قسم کے مظاہرے کرتے رہے جس میں وکلاء نے ان کا ساتھ دیا اور انتظامیہ کو ججوں کی بحالی پر مجبور کیا گیا آج عوامی تحریک بھی وہی حق استعمال کررہی ہے ۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ اس وقت وفاق کی اور پنجاب حکومت دو بھائیوں کے پاس ہے پنجاب کی حکومت نے عوامی تحریک کے کارکنوں کا قتل عام کیا جس میں بے گناہ مردو وخواتین سمیت 85افراد زخمی اور 14جاں بحق ہوئے ۔ حکومت نے ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈالا اور بہت سے لوگوں کو لاپتہ کردیا لیکن ان گھناؤنے جرائم پر ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی یہ عوام کا حق ہے کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں چونکہ یہ مظاہرے نواز شریف ، شہبا زشریف اور مسلم لیگ (ن) کیخلاف ہیں اس لئے عدالت کو اس سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ یہ درخواست مسترد کردے تاکہ حکومت عدالتی احکامات کا غلط استعمال نہ کرسکے ۔ پاکستان عوامی تحریک مسلم لیگ (ن) کی طرح نہیں جس نے سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ کیا اور ججوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا عوامی تحریک عوام ، حکومت اور عدالت کو یقین دلاتی ہے کہ وہ پرامن رہیں گے اور کسی عمارت یا شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا حکومت کنٹینرز لگا کر لوگوں کی آزادی سلب کررہی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو آمدورفت کی سہولیات فراہم کرے عوامی تحریک یقین دلاتی ہے کہ اس کے مظاہرین کسی کو سرکاری عمارتوں میں آنے جانے سے نہیں روکیں گے جواب میں مظاہرین کیلئے یرغمالی کا لفظ استعمال کرنے پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ علامہ طاہر القادری نے پانچ سو صفحات کی کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ دہشتگردی ، بنیاد پرستی اور کسی کو یرغمال بنانا غیر اسلامی اقدامات ہیں اور خود کش حملے قرآن و سنت کی تعلیمات کیخلاف ہیں وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ ہمارا آئینی حق ہے اور ہمارے دھرنے کے دوران ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا ۔

جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تاریخی طور پر پہلے معاملات طے کئے جاتے ہیں اور پھر ضروری ہو تو آئین میں ترامیم کی جاتی ہیں جس طرح آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ نے پہلے سمجھوتہ کیا اور پھر برطانوی پارلیمنٹ نے بھارت کی آزادی کا ایکٹ منظور کیا اسی طرح ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان سمجھوتے کے بعد 17ویں آئینی ترمیم کی گئی اور اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے 26ارکان پر مشتمل کمیٹی کے اتفاق رائے سے صرف آدھے دن میں اٹھارہویں ترمیم منظور کرلی گئی اس معاملے کے فریق بھی اس وقت مذاکرات کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور وہ کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کررہے ۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ لوٹ بازار بند کیا جائے فخر الدین جی ابراہیم کے استعفے نے سسٹم کی ناکامی ظاہر کردی ہے کیا یہ مطالبہ کرنا غلط ہے کہ نجکاری شفاف کی جائے جبکہ حکمران قومی اثاثے دوستوں کو بانٹ رہے ہیں اداروں کے سربراہوں کی تقرری قانون اور اصولوں کے مطابق کی جائے جبکہ حکومت اس کے برخلاف کررہی ہے ۔ آئین کے آرٹیکلز 3، 9اور 38 کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔

آرٹیکل140Aکے تحت سیاسی ، مالیاتی اور انتظامی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کئے جائیں جبکہ حکمران عدالتی فیصلوں کو پست پشت ڈال رہے ہیں ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز نہیں ملنے چاہیں اطلاعات تک سب کو رسائی دی جائے سیاسی جماعتوں کا احتساب ہو ہم ان سیاسی سوالات کے جواب آئین کے مطابق تلاش کرنے کیلئے مذاکرات پر تیار ہیں اور ایک مرتبہ پھر عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں تبدیلی نوشتہ دیوار بن چکی ہے اور انشاء اللہ یہ ملک کا مستقبل بنے گی ۔جواب میں ان الزامات کو مسترد کردیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کسی خفیہ ہاتھ کے مقاصد پورے کرنے کیلئے بے گناہ لوگوں کے ذریعے بدامنی پیدا کررہے ہیں ۔