حکومت کا ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ،چوہدری نثار کی ایک بار پھر عمران خان اور طاہر القادری کو مذاکرات کی دعوت ،عوام سے دس لاکھ کا ہجوم اسلام آباد میں لے کر نہ آنے کا انتقام عمران خان حکومت اور اس ملک کی نہتے عوام سے نہ لیں، دونوں جماعتیں چند ہزار افراد کے ذریعے تشدد کرکے ملک اور قوم کا نام بدنام نہ کریں ،13مئی کے انتخابات نگران حکومت نے کرائے مسلم لیگ (ن) نے نہیں کرائے،عمران خان جمہوری سوچ کا مظاہرہ کریں، ایسے مطالبات نہ کریں جو پورے نہیں ہوسکتے،سپورٹس مین کی طرح عمران کوسیاست میں بھی رول ماڈل بننا ہے ،پریس کانفرنس

بدھ 20 اگست 2014 09:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20اگست۔2014ء) حکومت نے ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک بار پھر عمران خان اور طاہر القادری کو مذاکرات کی دعوت دیدی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ اس وقت سارے کھیل کے پیچھے پاک فوج کا ہاتھ نہیں ہے فوج بلانے کا مقصد کوئی سیاسی کارروائی نہیں ہے ، عمران خان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں، عوام سے دس لاکھ کا ہجوم اسلام آباد میں لے کر نہ آنے کا انتقام عمران خان حکومت اور اس ملک کی نہتے عوام سے نہ لیں اگر وہ دس لاکھ ، پانچ لاکھ ، ایک لاکھ اور پچاس ہزار افراد بھی نہیں لاسکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی سزا حکومت کو دی جائے اور ریاست کے انتہائی اہم حصے میں تشدد کی راہ اختیار کرلی جائے ، دونوں جماعتیں چند ہزار افراد کے ذریعے تشدد کرکے ملک اور قوم کا نام بدنام نہ کریں ، اس وقت بھی سکیورٹی کے حوالے سے سنگین خطرات موجود ہیں مگر اس کے باوجود حکومت نے کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی پر قدغن نہیں لگائی،13مئی کے انتخابات نگران حکومت نے کرائے مسلم لیگ (ن) نے نہیں کرائے،عمران خان جمہوری سوچ کا مظاہرہ کریں اور ایسے مطالبات پیش نہ کریں جو پورے نہیں ہوسکتے،بطور سپورٹس مین جس طرح وہ رول ماڈل ہیں اس طرح انہیں سیاست میں بھی رول ماڈل بننا ہے ۔

(جاری ہے)

منگل کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری کو اسلام آباد میں آنے اور اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرنے کی اجازت دی سیاسی جماعتوں کے کہنے پر بھی انہیں اسلام آباد میں بلارکاوٹ آنے دیا ۔ عمران خان اور طاہر القادری مسلسل حکومت اور اس کے وزراء کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں اس کے باوجود بھی حکومت نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی دعوت دی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 13مئی کے انتخابات نگران حکومت نے کرائے مسلم لیگ (ن) نے نہیں کرائے نگران حکومت اور نگران وزرائے اعلیٰ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لگوائے ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی حلقوں کی جانچ پڑتال الیکشن ٹربیونل نے کرانی تھی انہوں نے کہا کہ حکومت چار نہیں بیس حلقوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کرانے کیلئے تیار ہے کسی بھی حلقے کی جانچ پڑتال کا کام الیکشن کمیشن کا ہے یہ بات کسی کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ ا لیکشن ہم نے نہیں کرائے نہ ہی دھاندلی کرکے ہم اقتدار میں آئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری سے اپوزیشن جماعتوں کی کمیٹی نے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا ہم بھی عمران خان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال کا حل صرف مذاکرات ہی ہیں تشدد نہ تو پاکستان اور نہ ہی پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ جو روایت وہ قائم کرنا چاہتے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ابتدائی طورپر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اسے اسلام آباد میں جلسے ، مارچ یا دھرنے سے روکا نہ جائے جبکہ پاکستان عوامی تحریک کاایجنڈا کوئی اور تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اس وقت تک اجازت نہیں دی جائے گی تاوقتیکہ اس کاایجنڈا سامنے نہ آجائے اور یہ ایجنڈا آئین اور قانون کے مطابق ہو مگر اس کے باوجود حکومت نے وسیع ترقومی مفاد ، جمہوریت دوستی اور آزادی اظہار رائے کے جذبے کے تحت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کو نہ صرف جلسے کی اجازت دی بلکہ انہیں ان کی مرضی کی جگہ بھی دی گئی اور اس حوالے سے دونوں جماعتوں نے اسلام آباد انتظامیہ اور وزارت داخلہ کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے تحریری طور پر لکھ کر دے رکھا ہے مگر گزشتہ دوروز کے دوران جو صورتحال سامنے آرہی ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا لاہور سے اسلام آباد کیلئے جب قافلہ روانہ ہوا تو یہ قافلہ جہاں بھی رکا اس نے حکومت وقت ، وزیراعظم ، وفاقی وزراء اور پارٹی کے خلاف روایتی تنقید کے ساتھ ساتھ بدزبانی ، گالم گلوچ اور الزامات کی بھی بوچھاڑ کی جس کا ردعمل گوجرانوالہ میں سامنے آیا مگر حکومت نے اپنے ان سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے پنجاب سے اسلام آباد تک تمام نجی دفاتر کو سیل کردیا تاکہ صورتحال خراب نہ ہو ۔

ان کاکہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر ہم اس مارچ پر قدغن لگاسکتے تھے مگر بطور وزیر داخلہ ایسا نہیں کیا البتہ جس وقت تک دونوں جماعتوں کی درخواست نہیں آئی اس وقت تک وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سمیت پی ٹی آئی کے صوبائی قافلوں کو اسلام آباد کے باہر روکے رکھا مگر جیسے ہی درخواست آگئی تو دونوں جماعتوں کو شدید تحفظات ، خدشات اور سنگین سکیورٹی تھریٹس کے باوجود اجازت دے دی گئی ۔

انہوں نے مزید کہاکہ جلسہ گاہ کی صفائی ، انتظامات اور شرکاء کو کھانا کھلانے سے تمام سہولیات ابتدائی طور پر پہنچائی گئی مگر اس کے باوجود عمران خان کا اور طاہر القادری کا رویہ قوم کے سامنے ہے ۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سپورٹس کمپلیکس سے مارگلہ ہوٹل کے سامنے سٹیج لے جانے کیلئے عمران خان کی طرف سے ذاتی پیغام آیا اور موبائل میسج بھی بھیجا گیا کہ وہ اور ان کی پارٹی پرامن رہیں گے اور ریڈ زون کی طرف نہیں بڑھیں گے مگر اس کے باوجود ریڈ زون میں داخل ہونے کی دھمکی دی گئی ۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے سیاسی و جمہوری سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک دونوں جماعتوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی اور جمہوری روایات کو برقرار رکھ کردونوں جماعتوں سے مذاکرات کی بھرپور کوشش کی گئی مگر مذاکرات کی پیشکش کا جواب نہ میں دیا گیا مگر وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں اپنی تحریری شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اگر کوئی اسلام آباد میں دس لاکھ لانے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر صرف دس لاکھ ، پانچ لاکھ ، ایک لاکھ یا پچاس ہزار افراد بھی نہیں لاتا تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ اس کا انتقام حکومت اور عوام سے لیا جاسکتا ہے، ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ حکومتیں آنی جانی ہیں ریاست نے انشاء اللہ تاقیامت قائم رہنا ہے لہذا عمران خان جمہوری سوچ کا مظاہرہ کریں اور ایسے مطالبات پیش نہ کریں جو پورے نہیں ہوسکتے عمران خان کی طرف سے اپنائی گئی پالیسی دہشتگردی کی عکاس ہے اور بتایا جائے کہ ڈنڈوں کے ذریعے دنیا میں کون سی جمہوریت کا تسلط کیا جاتا ہے سول نافرمانی کی تحریک کہاں شروع کی جاتی ہے اور نہ ہی ہر شخص خود ساختہ پارلیمنٹ بنا سکتا ہے یہ سب کھوکھلے نعرے ہیں اور انتقام و تشدد کی سیاست ہے اس کا کسی بھی جمہوری ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے میں شامل لوگوں کو کیا پتا کہ کون سے عمارت اہم ہے او ر کون سا سفارتخانہ ہے اور کون سی حساس جگہ ہے ریڈ زون پر عالمی حوالے سے بھی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ سفارتکاروں کی شدید خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ان کی نقل وحرکت محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ اس حوالے سے طویل مشاورت کی ہے جس میں ان کے علاوہ دیگر وفاقی وزراء بھی شامل تھے جبکہ ریڈ زون سمیت اسلام آباد کی سکیورٹی کے حوالے سے منگل کے روز سینئر عسکری قیادت اور چیف آف آرمی سٹاف سمیت اہم اجلاس بھی وزیراعظم کی زیر صدارت ہوا ہے جس میں تمام سکیورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال کے پیچھے دور دور دور تک فوج کا قطعی کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ فوج کو اس وقت عمران خان سمیت پوری قوم کی حمایت کی ضرورت ہے جہاں پاک فوج کے جوان غازی اور شہید اپنے خون کے نذرانے پیش کرکے اس ملک کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے باوجود ملک میں جمہوریت کے نام پراور عوام کے حقوق کے نام پر ایک نیا ڈرامہ لگا ہوا ہے جس کا ایجنڈے کا کسی کو کوئی پتہ نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ساری صورتحال کے بعد دو اہم فیصلے کئے ہیں اول یہ کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے ساتھ دوبارہ بامقصد مذاکرات کیلئے بات چیت شروع کی جائے گی جس کیلئے اپوزیشن کی ثالثی کمیٹیوں کے علاوہ حکومتی وزراء کی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کھلی پیشکش کرتے ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان جس کے ساتھ بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں میرے ساتھ ، اسحاق ڈار کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ تو وہ ان کے پاس جانے کیلئے تیار ہیں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے دوسرا اہم فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کی جائے گی جس کے ساتھ پولیس ،ایف سی اور رینجرز پہلے کی طرح اسی آرڈر میں موجود رہیں گے فوج کو اہم عمارتوں کے تحفظ پر مامور کیا جائے گا ۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری جمہوریت ، پاکستان اور عوام کے حقوق کے نام پر جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے کیلئے تشدد کا راستہ اپنانے سے باز رہیں ۔ عمران خان کے ساتھ عزت و احترام کا 45سالہ پرانا رشتہ قائم ہے اور میں کسی اور سیاسی جماعت سے ہیں اور وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور حوالے سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ بنتی ہیں بطور سپورٹس مین جس طرح وہ رول ماڈل ہیں اس طرح انہیں سیاست میں بھی رول ماڈل بننا ہے کیونکہ زیادہ تر نئے ووٹرز اور نوجوانوں کے علاوہ ایک اچھا خاصی عوام ان کو بطور لیڈر پسند کرتی ہے لہذا انہیں نئی جمہوری روایات قائم کرنا ہوگی ۔

ایک سوال پر انہو ں نے کہ عمران خان کے ساتھ دوستی اور قوم کی طرف سے دیا گیا فرض وہ اچھی طرح اور پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھائیں گے ۔